کالم

تبدیلی کا رنگ ختم نہیں ہو پائے گا

ملک میں حالات خراب ہو نے کے باوجود آٹھ فروری کو انتخابات ہو نے جارہے ہیں، لیکن کیا یہ انتخابات آزادانہ شفاف ہوپائیں گے؟ اگریہ سوال مسلم لیگ (ن )سے کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ دو ہزار تیرہ میں بھی ایسے ہی الیکشن ہوئے تھے،کوئی ان سے پوچھے کہ کیا دو ہزارہ تیرہ میں شہباز شریف سمیت مسلم لیگی قائدین کو الیکشن سے بیس دن پہلے گھروں سے اٹھایا گیا تھا؟کیاالیکشن سے قبل انٹرا پارٹی کا بہانہ بنا کر ان سے انتخابی نشان چھینا گیاتھا؟یہ بھی چھوڑیں،ان سے اتنا ہی پوچھ لیں کہ شاہد خاقان عباسی سمیت درجنوں مسلم لیگی رہنما اپنی جماعت کو خیر باد کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ انھیں انٹرا پارٹی الیکشن سے اختلاف ہے ، یہ پارٹی چھوڑنے والوں ببانگ دہل کہہ رہے ہیںکہ ہم کب تک ان کی نسلوں کی بھی غلامی کرتے رہیں گے۔
اس ملک کے عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں پر آزمائے کو ہی آزمایا جارہا ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف بار بار لایا جارہا ہے ، عوام سراپہ احتجاج ہیں ، مگر عوام کی کہیں کوئی سنوائی ہی نہیں ہورہی ہے ، عوام کو آزادانہ حق رائے دہی کا موقع دیا جارہا ہے نہ ہی بند کمروں کے فیصلوں میں شامل کیا جارہا ہے ، عوام میں مقبول پارٹی کو باہر نکال کر غیر مقبول آزمائی پارٹی کو اقتدار میں لایا جارہا ہے ، اس طرح کے عوام مخالف فیصلے کے کبھی نتائج اچھے نکلے ہیں نہ ہی زیادہ دیر تک چل پائے ہیں ، اس کے باوجود ایک ضد ہے کہ الیکشن کے نام سلیکشن کر نی ہے اور اس سلیکشن کوہی عام عوام کو مانا بھی پڑے گا۔ اگر دیکھاجائے تو الیکشن میں دو ہفتے رہ گئے ہیں، لیکن کوئی خاص انتخابی ہلچل نظر ہی نہیں آرہی ہے، کیو نکہ عام لوگوں کو انتخابی نتائج کا پہلے سے ہی پتا ہے ، اس کے ساتھ مختلف چینل انتخابی سروے بھی دکھا رہے ہیں، اس میں ایک قابل ذکر تعداد ایسے لوگوں کی بھی دکھائی دے رہی ہے کہ جن کا کہنا ہے کہ ہم کسی کو بھی ووٹ نہیں ڈالیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دوبڑی جماعتیں تین تین دفعہ برسراقتدار آچکی ہیں اور ان کے پچھلے کرتوتوں سے سب ہی اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی دوبارہ کامیاب ہو گئی تو یہ وہی کچھ کریں گے ،جو کہ پہلے کرتے آئے ہیں۔اس بار عوام کسی کے بہلائوے اور بہکائوئے میں آنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، عوام سب کچھ جانتے ہیںاور مانتے ہیں کہ ان دونوں ہی پارٹیوں نے ملک کو بدحالی کی دلدل میں دھکیلا ہے ،جبکہ تحریک انصاف قیادت کی پوزیشن قدر مستحکم نظر آرہی ہے کہ ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی بہت بڑا دھبا نہیں ہے،اس کے برعکس دوسروں کے تو پورے کے پورے ہی دامن آلودہ ہیں، پی ٹی آئی قیادت کے اوپر کچھ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے کیسزضرور بنائے گئے ہیں ،جیسا کہ سائفر، توشہ خانہ کیس ہیں، البتہ نوںمئی کا سانحہ انتہائی قابل مذمت ہے، اس کی حمایت کی جاسکتی ہے نہ ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن اس سانحہ کے پیچھے بھی بہت سارے ایسے عوامل ہیں کہ جنہیں دیکھنے کی ، تحقیق کر نے کی اشد ضرورت ہے، تاہم اب گزرتے وقت کے ساتھ عام لوگوں کے رجحانات میں بہت تبدیلی آرہی ہے، اس کے پیش نظر آٹھ فروری کو عوام کوئی سرپرائز بھی دیے سکتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ اس بار عام انتخابات میں عوام سر پرائز دینا چاہتے ہیں ، لیکن انہیں روکا جارہا ہے ، دبایا جارہا ہے ، خوفذاہ کیا جارہا ہے ،عوام کے فیصلے کو مختلف حربوں سے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے کیا ہو گا ؟اس غیر منصفانہ انتخابات سے کیا ہو گا؟ ایک بار پھر آزمائے ہوئے ہی اپنی کا میابی کا جشن منائیں گے ،ایک بار پھر اقتدار میں آجائیں گے ،لیکن اس اقتدار کو کوئی مانے گا نہ ہی ایسا اقتدار زیادہ دیر تک چل پائے گا ، اس کی کوئی ساکھ ہو گی نہ ہی عوام کی سپورٹ ہو گی ،کیو نکہ ایک ایسی جماعت نے عوام کی سوچ ہی بدل ڈالی ہے کہ جیسے اپنے طور پر سیاست سے باہر کر دیا گیا ہے ، ختم کر دیا گیا ہے ،لیکن اگر یہ جماعت ختم ہو بھی جائے توملکی سیاست سے تبدیلی کا رنگ کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button