کالم

سیاسی شہرت اور مذہبی سیاسی جماعتیں

سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جو تشہیر کا تقاضا کرتا ہے یعنی اس میں شہرت ہوگی تو کام کرنے کا فائدہ ہوگا ، اگر شہرت نہیں ہوگی تو عملی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں اخلاص و للہیت کے ساتھ سیاست میں حصہ لوں اور میری شہرت نہ ہو تو وہ شخص خام خیال ہے ۔ ایسا کرنے سے اس کا سیاسی شعبے میں کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا صرف وہ اپنا وقت برباد کرے گا کیونکہ اگر اہل علاقہ یا حلقہ کے لوگ اسے جانتے پہچانتے ہوں گے اس کی شہرت ہوگی تبھی اسے ووٹ ملیں گے ۔ اگر اس کی شہرت نہیں ہوگی اگر اسے لوگ جانتے ہی نہیں تو اسے ووٹ کون دے گا۔ اور ایک سیاست دان کی منزل ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ووٹ حاصل کر کے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو جائے اس کے بعد ہی وہ اپنی سیاست سے فائدہ اٹھا کر اپنے نظریات کے مطابق کام کر سکتا ہے۔ اپنے ملک اور اپنے ووٹرز کی بہتری کے لیے وہ کام کرے گا ، جب اسے ووٹ ملیں گے اور وہ اسمبلی میں پہنچے گا وہاں جا کر وہ ان کے حق کے لیے آواز اٹھائے گا ، ان کے لیے قانون سازی کرے گا ، ان کے بھلے کے لیے ہر طرح کے کام کر سکے گا ۔ اس لیے جو لوگ سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی میں سیاسی شعبے کو اپنانا چاہتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ شہرت حاصل کریں پہلے اپنے اہل علاقہ میں اپنی پہچان پیدا کریں ، نیک نامی پیدا کریں اس کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں ۔ وہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی اہل علاقہ کی خدمت کر سکتے ہیں ، کئی طرح سے ان کے لیے فلاحی کام کر سکتے ہیں ۔ اس طرح اپنا ایک نام پیدا کریں اپنا ایک مقام پیدا کریں اہل علاقہ کی نظر میں اپنی ایک عزت پیدا کریں ۔ اس کے بعد سیاست میں آئیں اور پھر اپنی تشہیر کریں کہ ہم نے سیاست میں حصہ لیا ہے ہماری یہ خدمات ہیں ، ہمارے یہ نظریات ہیں ہم اس کے مطابق انتخابات میں حصہ لیں گے اور آپ کی خدمت کریں گے ۔ اس میں ضروری نہیں ہے کہ آپ عام سیاستدانوں کی طرح صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کو سبز باغ دکھائیں بلکہ ہمارا مقصد بھی واقعی عوام کی خدمت ہو ۔ ہم حقیقتا یہ عزم کر کے سیاسی میدان میں اتریں کہ اگر ہمیں ووٹ ملیں گے تو ہم اسمبلیوں میں پہنچنے اور اختیارات حاصل کرنے کے بعد حقیقتا عوام کی خدمت کے لیے سر توڑ کوشش کریں گے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں میں تشہیر کی بہت کمی ہے ، اب نہ جانے وہ اسے اخلاص کے منافی سمجھتے ہیں کہ ہم اگر شہرت حاصل کریں تو ہمارا اخلاص ختم ہو جائے گا یا ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے وہ عوام میں تشہیر کر سکیں یا وہ سیاست میں سنجیدہ نہیں ہیں محض خانہ پوری کے لیے سیاست کر رہے ہیں ۔ بہرحال جو بھی وجہ ہے لیکن یہ تشہیر سے دور بھاگتے ہیں جس کی وجہ سے عوام انہیں جانتے ہی نہیں پھر ان کے مخالفین ان کے خلاف جو بھی پروپیگنڈا کرتے ہیں عوام اس کی زد میں آجاتے ہیں ، یہ اس کا جواب بھی نہیں دیتے تو عوام مزید بدظن ہو جاتے ہیں اور پروپیگنڈوں کا مزید شکار ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام مذہبی لوگوں اور علمائے کرام سے بدظن رہتے ہیں اسی وجہ سے انہیں ووٹ بھی نہیں دیتے۔ آج کل تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر علماء کرام کو بدنام کرنے کا ایک رواج چل نکلا ہے ۔ مختلف طریقوں اور مختلف حربوں سے لوگ علماء کرام سے لوگوں کو متنفر کر رہے ہیں اور ان کا جواب علماء کرام کی طرف سے نہیں دیا جا رہا سوشل میڈیا پر دیگر جماعتوں کے سیل انتہائی متحرک ہیں اور وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ پوسٹیں کرتے ہی رہتے ہیں ، ٹویٹس کرتے رہتے ہیں اپنی جماعتوں کے جھوٹے دعووں کو بھی پھیلاتے رہتے ہیں جو کام انہوں نے نہیں کیے ان کا سہرا بھی اپنے سر سجانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو رسوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس میں علماء کرام کی بھی توہین کی جاتی ہے۔لہذا ضروری ہے کہ علماء کرام سیاست میں آنے کے بعد گوشہ نشین ہو کر مت بیٹھیں ، گوشہ نشینی کے لیے خانقاہیں کافی ہیں لیکن اگر سیاسی شعبے میں آنا ہے تو اس کے لیے شہرت بہت ضروری ہے تاکہ عوام سمجھیں اور جانیں اور انہیں معلوم ہو کہ اصل میں علماء کرام کا کام کیا ہے ، ان کے نظریات کیا ہیں اور ان کے خلاف جو پروپیگنڈے ہو رہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں سے علماء کرام کو بڑی تعداد میں ووٹ ملتے ہیں لیکن پورے ملک کے ساڑھے تین سو سے زائد حلقوں میں سے گنے چنے 10 سے 12 حلقے ایسے ہیں جہاں سے علماء کرام کو ووٹ ملتے ہیں اس کے علاوہ کہیں بھی علماء کرام کو کوئی ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علاقے سے اگر کوئی عالم یا کوئی دیندار شخص الیکشن میں کھڑا ہے تو وہ کون ہے ۔ اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا تو لوگ ووٹ کیسے دیں گے اور کس طرح دیں گے حتیٰ کہ بعض اوقات ان کے اپنے کارکنوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے حلقے سے جماعت نے کسے ٹکٹ دیا ہے ۔ لہذا مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام میں نکلیں لوگوں سے ملیں جلیں انہیں بتائیں کہ ہم الیکشن میں کھڑے ہیں ہمیں ووٹ دیں ان کے سپورٹرز بھی عوام کو بتائیں کہ ہمارا فلاں امیدوار ہے جو دیندار بھی ہے اور قابل اعتبار بھی ، وہ قائدانہ صلاحیتیں بھی رکھتا ہے اور اسمبلی میں جا کر ہمارے لیے قانون سازی کی صلاحیت بھی اس میں موجود ہے ۔ وہ کرپٹ نہیں ہے وہ چور نہیں ہے وہ صرف سبز باغ دکھانے والا نہیں بلکہ حقیقتا کوشش کرنے والا ہے لہذا ہمارے اس امیدوار کو ووٹ دیا جائے۔عصر حاضر میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت ضروری ہے جس میں ہمارے مذہبی لوگ انتہائی پیچھے ہیں اگرچہ مذہبی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز موجود ہیں لیکن وہ انتہائی کم تعداد میں اوراکثر غیر فعال حالت میں ہیں ۔ چند ایک پوسٹیں کبھی کبھار سوشل میڈیا پر نظر آجاتی ہیں
لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے مذہبی سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہوں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کمپین چلائیں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اکاؤنٹس اور پیجز بنائیں جن کے ذریعے عوام میں تشہیر کریں ۔ عوام میں آگاہی پھیلائیں اور اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کا ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیں۔یہ تمام کام اخلاص کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں یہ اخلاص کے منافی ہرگز نہیں ہیں لہذاسیاسی شعبے میں اگر ہم قدم رکھ رہے ہیں تو اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button