اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ کر رہا ہے، لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔کیس کی سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگا دیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا لیکن کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کردیں کچھ نہیں ہوتا،کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہل کر دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں ؟ ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟
الیکشن ٹربیونل پورے الیکشن کوبھی کالعدم قرار دے سکتا ہے: وکیل مخدوم علی خان
وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کیلئے ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا ہمارے سیاستدان پوری دنیا کے سیاستدانوں سے الگ ہیں؟ کاغذات نامزدگی میں ذاتی معلومات دیں اور انتخابات کیلئے اہل ہو جائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا۔ کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لا کی بات ہے جس میں سول اور کریمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں۔ کل جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی۔ اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس ے کہا کہ کیا ہم جو چاہے وہ کر سکتے ہیں۔ کیا آپ مانتے ہیں دنیا میں سب سے اچھے اراکین پارلیمنٹ پاکستان کے ہیں۔ ایسا نہیں ہے میں کسی کی عزت نہیں دے رہا۔ کیا دنیا میں کہیں اراکین اسمبلی کے لیے ایسی اہلیت ہے۔ وکیل نے کہا کہ دنیا میں کہیں ایسی اہلیت کا معیار نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کو دیکھ رہا ہوں۔ الفاظ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن میرا یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین کے ہر لفظ کو نظر انداز کروں۔ آئین کا ہر لفظ اہم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کے ذریعے تشریح کی۔ آئین نے نہیں لکھا نااہلی کا معیار کیا ہوگا۔ یہ تو عدالتی فیصلے کے ذریعے طے کیا گیا مدت کیا ہوگی۔ ایک شخص قتل کرتا ہے، لواحقین کو دیت دیتا ہے تو کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کراتا ہے۔ کیا سزا تاحیات ہوتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے۔ نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی۔ آئین وکلا کے لیے نہیں عوام پاکستان کے لیے ہے۔ آئین کو آسان کریں۔ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں۔ فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مدت 5 سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈان کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا 5 سال ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپ کا کیا خیال ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہاں ڈیکلریشن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے نا اہلی کی مدت طے کرائی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نا اہلی کی مدت کیا ہو گی ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہو گی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے کہ نا اہلی 5 سال ہو گی۔ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس دیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اخلاقی طرز پر کون کون سے جرائم آتے ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں اخلاقی جرائم پر بات کی گئی ہے اور اس کیس میں تاحیات نااہلی کا اصول غلط طے کیا گیا تھا۔ 1995میں سپریم کورٹ صابر شاہ کیس میں اصول طے کرچکی ہے کہ آرٹیکل 62انتخابات سے قبل جب کہ آرٹیکل 63انتخابات کے بعد سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع اللہ بلو چ کیس 5 رکنی بینچ کا فیصلہ تھا تو اسحاق خاکوانی فیصلے پر انحصار کیوں نہیں کیا گیا؟۔ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کا احترام کیوں نہیں کیا گیا؟۔ 7 رکنی بنچ کے فیصلے کو 5 رکنی بینچ نے کیوں فالونہیں کیا؟۔ ہم 7 رکنی بینچ کیوں نہ مانیں پھر ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم بنیادی سوال پر پھنسے ہوئے ہیں۔ کون سا کورٹ آف لا ڈیکلیریشن دے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ طے کرے کہ ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 7 رکنی بینچ اتنے دنوں سے سوچ رہے ہیں کہ کیسے معاملہ آگے لے کر جائیں۔ ریٹرننگ افسر اس معاملے کو کیسے حل کرے گا۔ آصف سعید کھوسہ نے 7 رکنی بینچ سے مختلف رائے کیوں دی؟۔ کسی رکن کی اہلیت کیسی ہے یہ تعین ووٹر کو کرنے دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کورٹ آف لا ڈیکلیریشن دینے کے لیے کیا طریقہ کار اپنائے،ہوسکتا ہے یہ پارلیمنٹ طے کردے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھوکا دہی میں ڈیکلیریشن کا تعین ایک سال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس کی طرف کیوں نہ جائیں؟۔ فرض کریں کہ میں یہ فیصلہ دوں کہ ذہین شخص ہی پارلیمنٹ کا رکن ہوسکتا ہے، کون ذہین ہے یہ کون طے کرے گا؟۔ عدالت کو فلسفے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ جو اچھا ہے ہوسکتا ہے وہ کل اچھا نہ رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں بھی ڈیکلیریشن کا ذکر نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیکلیریشن کا تعین ہوسکتا ہے کل پارلیمنٹ کردے۔ پارلیمنٹ کو اپناکام کرنے دیں۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی رائے ہے۔ ہم عدالتی فیصلوں کے ذریعے آئینی خلا کو پر نہیں کرسکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میری خواہش ہے کہ ڈیکلیریشن کی مدت 5 سال ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو نہیں بتاسکتے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ ہمیں قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑی تو یہ بحث پھر کسی دن کے لیے رکھ لیتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ڈیکلیریشن کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں بتایا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف میں کورٹ آف لا کا ذکر ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجداری عدالت اوردیوانی عدالت دونوں کورٹ آف لا ہوسکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں لوگوں کے دلوں میں جھانک کر یہ طے نہیں کرسکتا کہ کون کیسا ہے؟۔ 1973میں آئین بنانے والوں نے آئین بنایا۔ پھر ایک شخص ٹہلتا ہوا آیا اور کہا کہیں پارلیمنٹ سر نہ اٹھا لے۔ہم اس پر کیوں بات نہیں کرتے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ میں تو اٹھارویں ترمیم پر رکا ہوا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں پھر آپ دیکھ لیں کہ حلف میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ملک کیساتھ کیا ہوا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مبشرحسن کیس میں 17رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62ون ایف کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو تمام ججز بیٹھے پھر بھی 17 پورے نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مشکل پہیلی کا حل نکالنا ہی اصل کام ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خلاف ڈیکلریشن کی حد تک کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس چیز کو ادھر ہی چھوڑ دیں۔ ہم پارلیمنٹ کو یہ نہیں کہہ سکتے یہ کرے اور یہ نہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ پارلیمنٹ نے صرف مدت کا تعین کیا۔ آنے والی پارلیمنٹ باقی طے کرلے گی۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی میعاد تاحیات یا 5 سال سے متعلق کیس میں دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا شارٹ آرڈر آج نہیں سنائیں گے۔ کوشش ہے مختصر حکمنامہ جلد سے جلد سنائیں۔
0 75 7 minutes read