بنگلہ دیشی طلبہ نے ہفتے کے روز ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالیں جبکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو مظاہرین پر کیے گئے پولیس کریک ڈاون کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ سول سروس کے ملازمین کے کوٹے کے خلاف ریلیوں نے جان لیوا فسادات کو جنم دیا تھا۔ ان فسادات کی وجہ سے حسینہ واجد کے 15 سالہ دور کی بدترین بیامنی پیدا ہوئی جس میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
فوج کی تعیناتی نے مختصر طور پر امن بحال کیا لیکن رواں ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد مسلمان اکثریتی ملک میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، جس کے بعد طلبہ کی طرف سے حکومت پر مزید مراعات دینے کے لیے دباو بڑھ گیا۔
ابتدائی مظاہرے شروع کرنے والے امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ گروپ نے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ اتوار سے مکمل عدم تعاون کی تحریک شروع کردیں۔
گروپ کے ایک رکن آصف محمود نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس تحریک میں ٹیکسز، یوٹیلٹی بلوں کی عدم ادائیگی، سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں اور بینکوں کے ذریعے ترسیلات زر کی ادائیگی کو روکنا شامل ہے۔
آصف محمود نے فیس بک پر لکھا کہ براہ کرم گھر میں نہ رہیں۔ اپنے قریبی احتجاجی مارچ میں شامل ہوں۔
بنگلہ دیشی طلبہ حسینہ واجد سے ان کے متعدد وزرا کی برطرفی اور گزشتہ ماہ کیے جانے والے تشدد کے لیے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں بیامنی کے عروج کے دوران بند کیے جانے والے اسکولز اور یونیورسٹیاں کھول دے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر موجود ہجوم نے حسینہ واجد سے استعفی دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے حسینہ واجد کے پریس سیکریٹری نعیم السلام خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ہفتے کے روز طلبہ کے ساتھ ان کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ مزید اختلاف نہیں چاہتیں۔ آصف محمود نے بتایا کہ طلبہ نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے۔
واضح رہے 76 سالہ حسینہ واجد 2009 سے بنگلہ دیش پر حکمرانی کر رہی ہیں اور رواں سال جنوری میں انہوں نے مضبوط اپوزیشن کے بغیر چوتھی مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
0 45 2 minutes read