مئی کی یادوں میں شہید ٹیپو سلطان کا ذکر سب سے بالا ہے۔ 4 مئی کو حیدر علی کے بہادر سپوت کا 225 واں یوم شہادت عقیدت واحتشام سے منایا گیا۔ یہی میسور کا وہ دلیر سلطان تھا جس کے نام کی ہیبت سامراج کے دل ودماغ پر آج تک قائم ہے۔ اللہ پر توکل اور رسول محتشمۖ سے محبت کا جو ثبوت اور مثالیںٹیپو سلطان سے ملتی ہیں وہ کسی اور مسلمان حاکم میں خال خال نظر آتی ہیں ، اللہ کریم حیدر علی اور اس کے جواں ہمت صاحب زادے کے درجات بلند کرے اور آج 56 مسلم حکمرانوں کو دو کروڑ مسلمانوں کی فوذوفلاح اور ان کی آزادی’ خودمختاری اورسلامتی کی حفاظت کرنے کی توفیق عطاکرے آمین …شہید ٹیپو سلطان کے یوم شہادت کے ساتویںروز( 11 مئی 2024 )کی سہ پہر ہم مدینہ منورہ کی پاکیزہ ہواؤں اور منورفضاوں میں سانس لے رہے تھے ۔مسجد نبویۖ میں داخل ہوتے ہوئے بار بار خود سے سوال کرتے رہے کہ کیا ہم واقعی خوش بخت ہیں جو اللہ اور اس کے عظیم رسولۖ کے مہمان بنے ہیں
رحمت برس رہی ہے محمدۖ کے شہر میں
ہر شے میں تازگی ہے محمدۖ کے شہر میں
عقیدت واحترام سے جھکی نظروں کے ساتھ بارگاہ رسالتۖ میں حاضری ہوئی، ہم پرنورانی اور عر فانی کیفیت طاری تھی ایسے میں دعا یاد رہی نہ الفاظ کا سہارا ملا ۔آنسو خود بخود سوالات کا روپ دھار رہے تھے۔ ویسے بھی کائنات کی سب سے معزز اور بڑی ہستی کے حضور پیش ہونے کے بعد گزارشات عرض کرنا کہاں یاد رہتا ہے ،نذر ہاشمی نے کہااور خوب کہا
نذر انۖ سے کیا اپنے دل کی کہیں ہم
وہ خو ب جانتے ہیں وہ خوب آشناء ہیں
11 مئی سے 21 مئی تک مسجد نبویۖ اور حرم پاک میں دعاؤں کے نئے نظارے دیکھے۔ ہر نماز کی ہر دعا میں فلسطین اور کشمیر کے مظلوم شہری شامل تھے ان شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اہل فلسطین اور اہل کشمیر آزاد فضاوں میں سانس لیں گے ۔اس بار میں بھی ہم بارگاہ نازۖ میں عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ہمیں پھر بھی حاضری کے لیے بلالینا!!
محبوبۖ کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکارۖ بلاتے ہیں
مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف عازم سفر ہونے لگے تو ٹیکسی ڈرائیور نے مین شاہراہ میں عارضی تعطل( رکاوٹ )کا جواز بتایا اور کہا کہ راستے کی بندش ہے ہمیں متبادل شاہراہ کا آپشن استعمال کرنا چاہیے۔ سب کچھ سننے اور جاننے کے بعد ہم اسی راستے سے حرم شریف جانے کہ ضد کر بیٹھے۔ ڈرائیور کہتا رہا صاحب چار گھنٹے کا ضیاع ہوگا مگر ہم ٹلنے والے کہاں ؟ ہم اور اہل خانہ کا قافلہ مکہ شریف کی طرف عازم سفر ہوا۔ ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد راستے کی بندش کا سائن نظر آیا، سیکورٹی اہلکاروں نے گاڑی واپس لے جانے کا اشارہ کیا۔ اہل خانہ واپسی کی راہ لینے لگے تو روک دیا، ہم نے سیکورٹی اہلکاروں کو پاسپورٹ اور ضروری دستاویزات دکھائیں اور کہا کہ ہمیں دن کی روشنی میں مکہ شریف پہنچا ہے اللہ کی رحمت نازل ہوئی اور ہمیں اجازت مل گئی۔ اجازت کس نے دی اور کیوں ملی؟ اس کا جواب کل ہمارے پاس تھا نہ آج … بس کرم’ کرم اور کرم ہوگیا؛ خالد محمود خالد یاد آگئے
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقاۖ کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے ہفتہ عشرہ ہوچلا مگر ابھی تک دل حجاج مقدس کے مبارک سفر میں اٹکا ہوا ہے آج محمد علی ظہوری کی بات سمجھ میں آئی
چھوڑ آیا ظہوری میں دل وجان مدینہ میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے
٭…اسرائیلی جارحیت کا روح کشن دن
ابھی عمرہ’ سعادت افروز ساعتوں اور غیر معمولی کرم نوازی کی بابت مزید یادیں شیئر کرنا تھیں کہ غزہ سے روح شکن خبر نے آن گھیرا۔ اسرائیل کی 8 ماہ جاری جارجیت کی سب سے خونیں واردات ہوئی جسکے نتیجے میں 26 اور 27 مئی کو 170 معصوم او بے گناہ فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔اسرائیل کا خیمہ بستی پر آگ و بارود سے حملہ، 85 فلسطینی شہید، بچوں کی سربریدہ لاشیں برآمد،حملے میں بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے جس نے ہر چیز کو جلاکر راکھ کردیا،بے گھر افراد کے کیمپ پر خوفناک حملے میں 75 فلسطینی بری طرح جھلس گئے۔ اس حملے میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا،7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں شہید فلسطینوں کی تعداد 35,984 ہوگئی اور 80,643 افراد زخمی ہیں۔ اسرائیل کے رفح میں بے گھر افراد کے کیمپ پر خوفناک حملہ ہوا۔الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے رفح میں رات کی تاریکی میں سیف زون میں پناہ گزین فلسطینیوں کی خیمہ بستی تل السلطان پر بمباری کردی جس کے نتیجے میںنہتے فلسطینی شہید ہوئے۔ شہدا میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیل نے اس حملے میں کم از کم 8 میزائل فائر کیے جنہوں نے ہر طرف تباہی مچادی۔فلسطین ہلال احمر سوسائٹی نے بتایا کہ یہ حملہ اتنا خوفناک تھا کہ خیموں میں موجود بہت سے لوگ زندہ جل گئے ۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس علاقے کے اسپتال اتنی بڑی تعداد میں شہدا اور زخمیوں کو سنبھالنے اور ان کے علاج معالجے کے قابل بھی نہیں ہیں کیونکہ اسرائیلی حکومت غزہ میں نظام صحت کو جان بوجھ کر مکمل طور پر تباہ و برباد کرچکی ہے۔غزہ کی سول ڈیفنس ٹیموں کے سربراہ ڈاکٹر محمد المغیر نے بتایا کہ ہم نے لاشوں اور زخمیوں کو باہر نکالا تو دیکھا زیادہ تر لاشیں جل کر خاک ہوگئی تھیں جبکہ زخمی اپنے اعضا سے محروم ہوگئے تھے۔ کچھ بچوں کی لاشوں کے سر تن سے جدا تھے اس حملے میں بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے خیموں میں ہر طرف خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس نے ہر چیز کو جلاکر راکھ کردیا۔اتنا ظلم اتنی بربریت شاید تاریخ میں کم ہی ہوئی ہو گی مگر مجال ہے کہ آج ان 56 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی غیرت جاگی ہو ۔ اور ہم کل اپنے ایٹمی ملک ہونے کی سالگرہ منا رہے تھے۔کیا کل جب یہ مسلم ممالک کے حکمران خدا کے حضور پیش ہوں گے تو یہ غزہ کے بیگناہ معصوم بچے ان کے گریبانوں کو نہیں پکڑیں گے۔ خدا ان سے ضرور پوچھے گا کہ میں نے تمہیں تو جہاد کا حکم دیا تھا مگر تم سب دنیا کی عشرت میں گم تھے اور میری ذات جو کل کائنات کی مالک ہے کو بھلا کر دنیا کے طاقتورں کے آگے جھک گئے تو کوئی جواب نہیں دے سکے گا۔ اللہ پاک سب دیکھ رہا ہے اور ضرور حساب لے گا۔ غزہ کے معصوم بچوں ہم شرمندہ ہیں!!
0 47 4 minutes read