مجھ کو معلوم نہ تیری قضا سے پہلے
نیرتاباں بھی زمین بوس ہو اکر تے ہیں
7جون 2012 …باربرس قبل راولپنڈی میں ایسی ہستی کی جدائی ہو ئی جس کی گرجدار آواز سے باطل لرزہ بر اندام ہوا کر تا تھا۔ علامہ تو حیدی کے صاحبزادے نے اپنے والد اور اکا برین کے ارفع مشن کو نئی جہت کیساتھ جاری رکھ کر خود کو بھی اکابرین اسلام کی فہرست میں شامل کرا لیا ۔ خطیب اسلام ، اسیر ختم نبوتۖ ، مجاہد اسلام ، پیر طر یقت اور روح رواں تحریک تحفظ ناموس رسالت ۖغرض مو لانا قاری حسین علی تو حیدی ہر حیثیت میں رسول اللہ ۖکی عظمت و شوکت اور اسلامی اقدار کے فروغ میں نمایا ں رہے۔جون2012 کے ابتدائی ایام میں بیماری بڑھی ، نقاہت میں اضافہ ہوا چند روزہ علالت کے بعد ممبر و محراب کی یہ شیر دل آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی ۔ آپ خانقاء حسینیہ خیابان سرسید میں آسودہ خاک ہیں رواں ماہ کی سات تاریخ کو 12 واں یوم وصال احتشام و اہتمام سے منایا جائے گا ۔
مو لانا قاری حسین علی تو حیدی کے بڑے صاحبزادے سجادہ نشین خانقاء حسینیہ شریف پیر سید ثنا اللہ حسینی نے سالانہ دعائیہ تقریبات کو اہل غزہ سے منسو ب کر نے کا اعلان کیا ۔یہ انبیاء کی سر زمین کے وہ کلمہ گو ہیں جن پر ظالم ، جابر اورفاسق اسرائیل7اکتوبر2023 سے بارود کی بارش کررہا ہے، 48ہزار فلسطینیوں کی شہادت اسلام کی عظمت وشکوہ کی گو اہی دے رہی ہے۔ بقائے اسلام کیلئے اہل غزہ کی قر بانیاں فراموش ہوں گی نہ ہی رائیگاں جائیں گی۔ مو لانا قاری حسین علی تو حیدی کا مشن بھی یہی تھا جب دین آزمائش مانگے تو سب کچھ پیش کردو، یہ ادا اللہ اور اس کے رسول ۖ کو بہت پسند ہے۔ میدان کر بلا میں خاندان نبوتۖ نے جان ومال اور اولاد کی قر بانی سے اللہ کریم کو راضی کیا ۔مقام شکر ہے کہ مر حوم و مغفور مو لانا قاری حسین علی تو حیدی کے صاحبزادے پیر ثنا اللہ حسینیسجادہ نشین خانقاء حسینیہ شریف، صاحبزادہ سمیع اللہ حسینی وائس چیئرمین مر کزی علماء کو نسل اور صاحب زادہ قاری عطا ء المحسن الحسینی اپنے اپنے اندازاور اپنے اپنے طور پر اپنے والد کا مشن جاری رکھے ہو ئے ہیں، اللہ کریم ان کے اعمال اور افکار کو بر کتو ں سے نوازے آمین ۔مو لانا قاری حسین علی تو حیدی بہت بڑے دینی علمی گھرانے سے تھے ، والد مولانا عبدالستار توحیدی اپنے وقت کے بڑے توحیدی مبلغین میں شامل تھے جنہوں نے اپنے دور میں توحید کا پرچم بلند کیا۔حضرت توحیدی نے اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عمومی طور پر خطہ پوٹھوہار اور خاص طور پر راولپنڈی میں توحید کی تبلیغ کا فریضہ بڑے احسن طریقے سے انجام دیا۔ ماشائ اللہ رمضان المبارک میں بورا مہینہ فی سبیل اللہ افطاری و لنگر کا اہتمام ہوتا ہے روزہ داروں کے لیے یہ سب فیض حضرت پیر حسین علی توحیدی کا ہے آپ نے علمائے حق کے ساتھ کام کیا ، مولانا سعید الرحمن قاسمی لاہوری بھی انکے ہم عصر رہے 1982 میں مرکزی جامع مسجد مکی کی بنیاد رکھی اس موقع پر حضرت کے والد حضرت اقدس مجاہد ختم نبوت مولانا عبد الستار توحیدی صف اول میں تھے۔حضرت حسین علی توحیدی کا جید علمائے اکرام و روحانی شخصیات سے قلبی تعلق رہا ہے ۔ آپ کاخواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد آف کندیاں ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ،حضرت مولانا پیر حافظ غلام حبیب نقشبندی آف چکوال، حضرت پیرنفیس الحسن شاہ لاہور ، حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی جامعہ اشرفیہ لاہور، حضرت مولانا احمد علی لاہوری ،حضرت مولانا مفتی محمود حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ، مولانا فضل الرحمن امیر جمیعتِ علمائے اسلام (ف)۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہید اکوڑہ خٹک ۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی خلیل الرحمن قریشی ۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ۔ حضرت مولانا عبید اللہ جامعہ اشرفیہ ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ( ایم این اے) اور قاضی حسین احمد امیر جماعتِ اسلامی سمیت جید علمائے اکرام و اکابرینِ امت سے دینی و قلبی تعلق رہا ۔
٭… دینی خدمات :
حضرت اقدس کے حلقہ احباب میں بہت بڑی شخصیات شامل تھیں جن کے ساتھ مل کر تحصیل ِ علم سے فراغت کے بعد حضرت نے اقامتِ دین کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دیا۔ جن شخصیات سے آپ نے علمی استفادہ کیا اور ذہنی خدمات کے سلسلہ میں اْن سے ہمیشہ رہنمائی لی اْن میں سے سے اہم شخصیت حضرت مولاناسید یوسف بنوری تھے۔ آپ چونکہ بنوری ٹائون کراچی سے فارغ التحصیل تھے تو اس نسبت سے مولانا بنوری آپ کے اساتذہ میں شریک تھے۔ حضرت حسین علی توحیدی اکثر حضرت سید یوسف بنوری کے ایمان افروز واقعات سنایا کرتے تھے اور آپ حضرت سید یوسف بنوری کے خاص شاگردوں میں شامل تھے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ حضرت سید یوسف بنوری کے وصال سے پہلے آخری ایاّم میں رحلت تک راولپنڈی میں اْن کی خدمت میں حاضر رہے۔حضرت پیر مولانا حسین علی توحیدی کے دینی حوالے سے خدمات کے سلسلہ کا جو سفر تھا اْس میں آپ نے مختلف ادوار میں بڑے جید علمائ کے ساتھ مل کر اس سفر کو جاری رکھا۔ اس میں سب سے اہم سفر تحریک تحفظ ختم نبوت کا تھا ۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا ایک ہی عقیدہ ہے کہ آنحضرت محمد ۖ آخری بنی ہیں اور ان کے بعد کوئی بنی نہیں آئے گا۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے اگر ہم دیکھیں تو حضرت نے بہت محنت کی اور اس راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں اور پریشانیوں کو خندہ پیشانی اور ایمانی طاقت سے برداشت کیا۔ کیونکہ یہ ایک بہت مشکل مشن تھا جس میں قید و بند کی صعوبتیں اور درجنوں ایف آئی آر کا سامنا اور اْس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب اور پھر دوران خطاب پابند سلاسل کر دیا جانا۔ اْس دور میں حضرت پیر مولانا حسین علی توحیدی نے بہت سے علماء حق کے ساتھ مل کر کام کیا۔ جن میں خطیب ایشیائ حضرت مولانا ضیائ القاسمی ، خطیب اسلام حضرت مولانا سید عبدالقادر آزاد ،خطیب بادشاہی مسجد لاہور ،خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان لاہوری کی طرح کی بہت سے عملی شخصیات تھیں۔ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ، مولانا سنیٹر عبدالحکیم ہزاروی ، حضرت مولانا قاری سعید الرحمن راولپنڈی یہ وہ علما اکرام تھے جو اپنے ہاں بڑے دینی ادارے چلا رہے تھے۔ اسکے علاوہ حضرت مولانا عبداللہ شہید اسلام آباد میں جب بھی کسی قسم کی کوئی ضرورت پیش آتی تو حضرت مولانا حسین علی اپنی خدمات کو سب سے پہلے پیش کرتے۔ اس سفر کے دوران حضرت مولانا پیر قاری حسین علی توحیدی نے اپنی خدمات کا سفر پاکستان میں ہی نہیں دیں بلکہ بیرون ملک اور کشمیر میں بھی آپ نے اپنی خطابت کے ذریعہ دین کی خدمت کی اس سلسلہ میں آپ نے مولانا یوسف کشمیر (پلندری) کے ہاں متعدد بار خطاب کیا اور مختلف پروگراموں میں شرکت کی ۔ مفتی قاضی روئیس صاحب میر پور و الوں سے علمی تعلق رہا ۔ انگلینڈ میں بھی سالانہ ختمِ نبوت? کا نفرنس سے خطاب کے لئے آپ ہر سال انگلینڈ تشریف لے جاتے۔ آپ کی دینی خدمات کے حوالے لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک نشست کے اند آپ کی دینی خدمات کا احاطہ کر نا مشکل ہے۔
٭…سماجی اور ملی خدمات :
دینی خدمات کے ساتھ آپ ہر وقت سماجی اور سیاسی کاموں میں قوم کی خدمات کے ساتھ آپ ہر وقت سماجی اور سیاسی کا موں میں قوم کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کرتے۔ آپ نے 1982ئ میں مرکزی جامع مسجد مکیّ کی بنیاد ڈالی اس بنیاد کے موقع پر بڑے جید علمائِ کرام جن میں حضرت مولانا پیر عبدالحفیظ مکی، حضرت شیخ الحدیث مفتی ولی حسن ٹونکی، حضرت مولانا محمد مکی حجازی مکہ مکرمہ جو اب بھی بیت اللہ کے سائے میں درس دیتے ہیں ۔ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم مولانا مفتی نعیم الرحمن کراچی ، مولانا قاری امین ورکشابی محلہ راولپنڈی مفتی زر ولی خان، مولانا قاری الیاس تاجک ( آپ کے اساتذہ میں سے تھے) انہوں نے اس موقع پر حضر ت کی تمام تر محنت اور کاوش کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے علاوہ قاری احسان اللہ اور حضرت مولانا فضل محمد جیسے علمائ کے علاوہ سینکڑوں بزرگانِ دین نے اس مشن میں آپ کا ساتھ دیا حضرت توحیدی کا پیر صاحب گولڑہ شریف، پیر نصیر الدین نصیرگیلانی سے ایک گہرہ علمی و روحانی تعلق تھا یہاںپر ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت جس نے اس مرکز کی بنیاد سے لے کر آج تک اپنی حمایت اور شفقت سے نوازہ وہ سابق چیئر مین سینٹ جناب راجہ محمد ظفر الحق ہیں۔ جن کا اس مرکز سے تقریباً 5 دہائیوں سے زائد کا تعلق ہے اور اس مرکز کی تکمیل میں بہت سے سیاسی زعمائ کا تعاون بھی شامل ہے۔ اس مرکز سے پھوٹنے والے ہدایت کے چشموں سے راقم نے بھی استفادہ کیا۔ مرکزی جامع مسجد مکی سے متصل مدرسہ جامعہ عربیہ اسلامیہ حسینیہ جو کہ آج تک ہزاروں طلبہ کو اپنی آغوش میں لئے خدمت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس میں درجہ حفظ و قرآت اور درسِ نظامی کے شعبہ جات میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مدرسہ کی اہم بات یہ ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ اندروں اور بیرون ملک اقامت دین کے فریضہ کو سر انجام دے رہے ہیں۔ اس نسبت سے یہ بہت اہم ہے کہ یہاں پر طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ اور طلبہ کو دنیا وی تعلیم سے بھی آراستہ کیاجاتا ہے۔
۔ مولانا حسین علی کو اللہ نے اولادِنرینہ سے بھی نوازا ،آپ کے سب سے بڑے بیٹے قاری پیر ثنائ اللہ الحسینی ہیں جو مر کز حسینیہ کے مہتمم ہیں اور خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے صاحبزادے حضرت پیر قاری سمیع اللہ الحسینی مسجد و مدرسہ کی نظامت کے ساتھ ساتھ چکری روڈ میں واقعہ دینی ادارہ کے سربراہ ہیں۔تیسرے اور سب سے چھوٹے صاحبزادے قاری عطا رالمحسن اسی مرکزمیں گزشتہ 10برس سے ہر ہر سال توا تر کے ساتھ رمضان المبارک میں قرآن پاک کی تلاوت سے نمازِ تراویح میں لوگوں کے اذہان و قلوب کو مزین کر تے ہیں۔ ان تینوں بیٹوں کو اللہ نے حضرت استاد محترم مولانا حسین علی توحیدی جیسی خوبصورت آواز سے نوازا ہے۔ مسجد اور مدرسہ سے متصل خانقاہ حسینیہ ہے جو آنے والے معتقدین کو ذکر و فکر کی دعوت دیتی ہے اور پورا ہفتہ ذکر واز کار کی محافل کا انعقاد ہوتا ہے یہ خانقاہ پیر سید ثنائ اللہ حسینی کی زیرِ سایہ اپنے فیوض و برکات اس پر فتن دور میں بھی روشنی اور ہدایت کی صورت میں پورے معاشرہ میں پھیلا رہی ہے۔ بہت سے لوگ یہاں پر آکر اپنی ظاہری اور باطنی اصلاح کا سامان حاصل کرتے ہیں اور دور دور سے آنے والے زائیر ین کے لئے لنگر کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ مرکز عشق کاسیاسی و سماجی اور ذہنی لحاظ سے خدمات کا ایک بہت لمبا سلسلہ ہے جو ایک نشست میں مکمل نہیں ہو سکتا۔
0 33 7 minutes read