میڈم نور جہاں، جنہیں "ملکہ ترنم” کے لقب سے جانا جاتا ہے، برصغیر کی موسیقی اور فلمی دنیا کی ایک عظیم ہستی تھیں۔ ان کی زندگی، کیریئر، اور فن نے انہیں ایک لازوال مقام دیا ہے۔ یہ تفصیلی فیچر ان کی زندگی کے مختلف پہلوں، کیریئر کے ادوار، موسیقی کی مختلف اصناف میں ان کی مہارت، اور ان کے اثر و رسوخ پر روشنی ڈالتا ہے۔ ابتدائی زندگی اور پس منظر خاندان اور ابتدائی زندگینور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ وہ 21 ستمبر 1926 کو برطانوی ہندوستان کے شہر قصور، پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین مدر یار اور فتح بی بی دونوں فنکارانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ نور جہاں کے والدین نے ان کی ابتدائی موسیقی کی تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا، جس نے ان کے فن کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی تعلیم اور تربیتنور جہاں نے ابتدائی موسیقی کی تعلیم استاد بڑے غلام علی خان کے شاگرد خان صاحب بابا تاج دین سے حاصل کی۔ انہوں نے گائیکی کی بنیادی باتیں سیکھیں اور بہت جلد اپنی منفرد آواز کی وجہ سے محافل میں پہچانی جانے لگیں۔ ان کی ابتدائی تربیت میں کلاسیکی موسیقی کا خاصہ عمل دخل تھا، جس نے ان کی فنی صلاحیتوں کو جلا بخشی فلمی کیریئر کا آغاز ابتدائی فلمیںنور جہاں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1935 میں فلم "پنجاب میل” سے کیا۔ 1937 میں انہوں نے "ہیر سیال” نامی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا اور اپنی گائیکی سے لوگوں کے دل جیت لیے۔ ان کی اداکاری اور گائیکی دونوں ہی شائقین میں بہت پسند کی گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے "گاں کی گوری” اور "خاندان” جیسی فلموں میں بھی کام کیا۔ ہندوستان میں شہرت1940 کی دہائی میں نور جہاں ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف گلوکارہ اور اداکارہ بن چکی تھیں۔ انہوں نے اس دور کی مشہور فلموں جیسے "انوکھا دان”، "نوکر”، "زلزلہ”، اور "گوہر” میں نہ صرف اداکاری کی بلکہ اپنے گائے ہوئے گانوں کی بدولت بے حد مقبولیت حاصل کی۔ ان کی آواز میں ایک خاص جادو تھا جو شائقین
کو مسحور کر دیتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں فلمی کیریئر کی نئی شروعات1947 میں تقسیم ہند کے بعد نور جہاں نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں کی فلمی صنعت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ انہوں نے پاکستان میں فلمی کیریئر کی نئی شروعات کی اور کئی مشہور فلموں میں کام کیا۔ ان کی اولین پاکستانی فلم "چن وے” تھی، جس کی ریلیز 1951 میں ہوئی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور نور جہاں کی شہرت کو مزید مستحکم کیا۔ موسیقی میں مہارتنور جہاں کی آواز میں ایک خاص قسم کی گہرائی اور مٹھاس تھی، جو انہیں دیگر گلوکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔ ان کی گائیکی میں کلاسیکی موسیقی کی جھلک، نیم کلاسیکی راگنیوں کی مہارت، اور عوامی گانوں کی روانی شامل تھی۔ انہوں نے غزل، گیت، قوالی، اور فلمی گانے گائے، اور ہر صنف میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔فلمی کیریئر کی اہم فلمیں چن وے” (1951)”چن وے” نور جہاں کی اولین پاکستانی فلم تھی جس نے شائقین میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری اور گائیکی نے لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ "دوپٹہ” (1952)یہ فلم نور جہاں کی ایک اور بڑی کامیابی تھی۔ اس فلم میں ان کے گائے ہوئے گانے "چندا توری چاندنی میں”، "دوپٹہ میرا ململ کا”، اور "ہائے رے ہمری بلموا” نے شائقین کو مسحور کر دیا۔ "انتظار” (1956)”انتظار” ایک اور مشہور فلم تھی جس میں نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس فلم کے گانے "آواز دے کہاں ہے” اور "جانے وہ کیسے لوگ تھے” نے عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ گائیکی میں انقلابی تبدیلیاں نیم کلاسیکی اور کلاسیکی موسیقینور جہاں کی گائیکی میں نیم کلاسیکی اور کلاسیکی موسیقی کی جھلک واضح تھی۔ ان کی آواز میں راگ راگنیوں کی خوبصورتی اور پختگی تھی جو انہیں دیگر گلوکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔ ان کے گائے ہوئے کلاسیکی گانے آج بھی موسیقی کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ غزل اور گیتنور جہاں نے غزل اور گیت دونوں میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ان کی گائیکی میں ایک خاص قسم کی روانی اور جذباتیت تھی جو سننے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ ان کی مشہور غزلوں میں "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” اور "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے” شامل ہیں۔ ملی نغمے 1965 کی جنگ کے دوران1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران نور جہاں کے گائے ہوئے ملی نغمے، جیسے "اے وطن کے سجیلے جوانو” اور "میرے ڈھول سپاہیا”، نے قوم کے جذبات کو پروان چڑھایا۔ ان کے یہ گانے آج بھی وطن پرستی کی مثال سمجھے جاتے ہیں۔ جنگ کے بعدجنگ کے بعد بھی نور جہاں نے کئی ملی نغمے گائے جو آج بھی قومی تقریبات میں گائے جاتے ہیں۔ ان کے ملی نغمے عوام کے دلوں میں وطن کی محبت اور حب الوطنی کے جذبات کو اجاگر کرتے ہیں۔ انعامات اور اعزازات قومی اعزازاتنور جہاں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز "تمغہ امتیاز” دیا گیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں "نشانِ امتیاز” اور "ستارہ امتیاز” سے بھی نوازا گیا۔ بین الاقوامی اعزازاتنور جہاں کی آواز کی جادوگری نے انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی مقبول بنایا۔ انہوں نے مختلف ممالک میں اپنی گائیکی کے جوہر دکھائے اور بین الاقوامی شائقین کی دلوں میں جگہ بنائی۔ ذاتی زندگی شادی اور خانداننور جہاں کی پہلی شادی شوکت حسین رضوی سے ہوئی، جو ایک فلم ڈائریکٹر تھے۔ ان کے تین بچے ہوئے، لیکن ان کی شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ بعد میں انہوں نے اعجاز درانی سے شادی کی، لیکن یہ شادی بھی ناکام رہی۔ ذاتی مشکلات اور چیلنجزنور جہاں کی زندگی میں کئی چیلنجز اور مشکلات آئیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ ہمت اور حوصلے سے ان کا مقابلہ کیا۔ ان کی ذاتی زندگی میں اتار چڑھا کے باوجود ان کی فنی صلاحیتوں اور محنت نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا۔ ورثہ اور اثر موسیقی کی دنیا میں اثرنور جہاں کی گائیکی اور موسیقی نے برصغیر کی موسیقی کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے گائے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور ان کی موسیقی کی تعلیم آج بھی جاری ہے۔ ان کے انداز اور تکنیک نے نئی نسل کے گلوکاروں کے لیے مشعل راہ کا کام کیا۔ فلمی صنعت میں کردارنور جہاں نے پاکستانی فلمی صنعت میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے فن سے فلمی صنعت کو نیا رنگ دیا بلکہ نئے فنکاروں کی رہنمائی بھی کی۔ ان کے بغیر پاکستانی فلمی صنعت کا تصور نامکمل ہے۔ آخری سال اور انتقال بیماری اور آخری ایامنور جہاں کی زندگی کے آخری سال مختلف بیماریوں کے ساتھ گزرے۔ انہیں دل کی بیماری تھی اور وہ اس کے علاج کے لیے کئی بار ہسپتال میں داخل ہوئیں۔ ان کی طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ موسیقی سے محبت اور لگن برقرار رکھی۔ انتقالنور جہاں کا انتقال 23 دسمبر 2000 کو کراچی میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی موسیقی اور گائیکی کا جادو کم نہیں ہوا۔ ان کے گائے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔ اختتامیہملکہ ترنم نور جہاں کی زندگی، ان کی محنت، ان کی فنکارانہ صلاحیتیں اور ان کی گائیکی نے انہیں ایک ابدی مقام دیا ہے۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی موسیقی کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش شخصیت ہیں۔ ان کی وراثت آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
0 86 5 minutes read