کالم

شہید صدر ایران آیت اللہ سید ڈاکٹر ابراہیم رئیسی ساداتی

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ! آیت اللہ سید ڈاکٹر ابراہیم رئیسی ساداتی اپنے آٹھ رفقاء کے ہمراہ19مئی 2024کو منصب شہادت پر فائز ہو گئے ۔وہ ایک متقی ، پرہیزگار ، خدا ترس اور درویش منش سید زادے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت دین و مخلوق خدا میں گزاری ۔ اس سانحہ میں انکے ہمراہ آیت اللہ سید علی آل ہاشم امام جمعہ تبریز، ڈاکٹر حسین امیر عباللاہیان وزیر خارجہ ایران، ڈاکٹر مالک رحمتی گورنر صوبہ آذربائیجان اور پانچ اور افراد تھے۔ ایران کی ملت بالخصوص اور امت مسلمہ بالعموم سوگ میں ہے۔ یہ شہداء تو منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ مگر کچھ شیاطین صفت افراد زہریلے ، غلط اور جھوٹے پراپیگنڈوں میں مصروف ہو گئے ہیں ۔ انمیں سے کچھ نامعلوم اور جعلی شناختوں سے سادات و مجتہدین و علمائ و مومنین کو گالیاں بکنے والے ہیں اور کچھ تو متعصب ہندو بنیے ، کچھ صیہونی ایجینٹ اور معلوم آئی ڈیز کے حامل جاہلانہ حسد کا شکار ہیں ۔ کئی ممالک کے سوشل میڈیا ز پر اور کچھ پرسنل اگاؤنٹس پر بنی امیہ طرز کا پراپیگنڈہ جاری و ساری ہے۔ اس عظیم سانحہ کے بعد پچاس فیصد تبصرے جہالت ، عناد، تعصب ، حسادت اور فرقہ واریت نما انتقام پروری پر مشتمل ہیں۔ تاہم آدھے اظہار حقیقت والے بھی ہیں ۔ ہندو بنیوں پر افسوس نہیں! نہ ہی صیہونیوں پر افسوس ہے ! نہ ہی انصاف سے عاری مدعیان انصاف پر انکا تو کام ہی مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو ایسے لوگوں پر الزام لگا رہے ہیں جو اپنا دفاع نہیں کرسکتے ۔ اس سے بڑھ کر افسوس خود کو شیعہ کہلانے والوں پر ہے جو اس سانحہ پر ٹھٹھہ و مذاق کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ انگلیوں پر بھی گننے میں نہ آئینگے مگر مین اسٹیم میں فلسفئی دوراں بن کر ایسا پوز کرتے ہیں کہ وہ ارسطو ئے زمان ہیں تاکہ معصوم کمیونٹی کو دھوکہ دیں۔ اب آئیے ہم ایک ایک کر کے انکے پراپیگنڈوں کا جواب دیتے ہیں۔اولا :ـ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ کے نائب کا کوئی مسئلہ درپیش ہی نہیں ہے کہ کہا جائے کہ شہید صدر ، فرزند رہبر آغا مجتبء خامنہ ای کیلئے کوئی خطرہ تھے۔ ایران کا سسٹم میں بخوبی جانتا ہوں۔ رہبر کے انتقال یا مرض شدید کی صورت میں 79 رکنی مجلس خبرگان ( جیورسٹ کونسل یا فقہاء کی ایکسپرٹ کونسل ) نئے رہبر کا تعین کرتی ہے ۔ پہلے سے پری پلاننگ نہیں ہوتی ہے۔ کسی کو آغائے خامنہ ای کے رہبر بننے کا وہم و گمان بھی نہ تھا وہاں انتخاب آزاد رائے سے ہوتا ہے فارم 45 یا 47 سے نہیں ۔ وہاں خود شخص کبھی رہبر کیلئے والنٹیر نہیں کرتا ۔ نہ باپ اپنے بیٹے کو منصوب کرتا ہے بلکہ رہبر بننے الا خود نہیں چاہتا اور نہیں جانتا بلکہ اسے مجتہدین یا قریب مجتہدین اصرار کرکے بناتے ہیں ۔ رہبر کے فرزند آغائے مجتبیٰ خامنہ ای کے رہبر بننے کی کوئی تجویز زیر غور ہی نہیں ہے ۔ نہ وہاں انقلاب کے بعد موروثیت کا کوئی عمل دخل ہے ۔ یہ ہندو بنیاؤں کی ذہنی نا پاکی کا شاخسانہ ہے۔
ثانیا :ـ یہ بھی یاد رکھیں کہ جنکے سر پر عمامہ ہوتا ہے وہ عادل ہوتے ہیں مجتہد ین شہرت اور مقام سے دور رہتے ہیں۔ ثالثا:ـ اگر موروثیت کا کوئی عمل دخل انقلاب میں ہوتا تو فرزند امام انقلاب آغا احمد خمینی بغیر کسی منصب کے دنیا سے نہ چلے گئے ہوتے ۔ رابعا :ـ آغائے حسن خمینی غریب الوطنی میں نجف اشرف میں آج درس خارج نہ پڑھا رہے ہوتے۔ بلکہ دادا کے لائے ہوئے انقلاب میں کسی پوسٹ کے امیدوار ہوتے۔ خامسا :ـ کچھ بائی پولر اینکر اور کالم نگار بنے ہیں ۔انہیں بھی تنبیہ ہو اس سید زادے نے نہ کسی عالم کا قتل کیا ہے نہ کسی مومن کا۔ پراسیکیوٹر سے لیکر چیف جسٹس تک اور تولیت آستان قدس رضوی سے لیکر منصب صدارت تک انکا شفاف کردا ایک آئینہ رہا ہے۔ وہ نہ کوٹھیاں چھوڑ گئے نہ مربعے نہ جائیدادیں نہ ریئل اسٹیٹ نہ انہوں نے نے اعزا پروی کی ۔ انکی ماں آج بھی ایک غریب نشین علاقے میں ایک معمولی گھر میں رہ رہی ہیں ۔ سادسا :ـ ہاں وہ کردار ہی چھوڑ گئے ہیں۔اور خدمات کی مثالیں ہی چھوڑ گئے ہیں۔ سابعا :ـ اگر وہاں کوئی مال بنانے کا رواج ہوتا تو امام خمینی کا آدھا ایران ملکیت ہوتا۔ وہ تو سوائے اپنے جدی پشتی گھر کے کچھ چھوڑ کر ہی نہیں گئے۔ سابعا :ـ ایک خبیث جو سب شرفائ کو مقصر کہتا لکھتا ہے اس سید زادے کو بھی یہی لکھتا ہے حالانکہ کہ اس بزرگوار کی انگوٹھی ملتی ہے تو اسپر اللہ و رسول کے کے بعد جلی یا علی لکھا ہے
یہ معاندین چلو پانی میں ڈوب مریں۔
ثامنا :ـ ہاں اس سید زادے کا قصور یہ تھا کہ وہ اتحاد امت کا حامی تھا
وہ غزہ میں مظالم کے خلاف تھا
وہ اسلاموفوبیا کا جواب دیتا تھا
وہ یونائیڈڈ نیشن میں قرآن دکھاتا تھا ۔ وہ دنیابھر کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھاتا تھا ۔ اسنے چیف جسٹس ہوتے ہوئے حکومتوں میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی۔ مال نہیں بنایا ۔ اسنے صدارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھا۔ اسنے نائیجیریا کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھائی اسنے یمن کے مظلوموں کو اکیلا نہیں چھوڑا۔اسنے کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگایا ۔وہ قبلہ اول کی آزادی کا علم اٹھائے تھا۔ وہ ولایتی تھا۔ عزادار تھا ۔ ماتمی تھا ۔سید کی پاک روح کو سلام اور اسکے ساتھیوں کو سلام !!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button