
کشمیر جنت ارضی کا خطہ گزشتہ چار صدیوں سے غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے مغلوں، افغانوں، سکھوں سے چلتا یہ سلسلہ آخر کار ڈوگروں تک پہنچا جہاں گلاب سنگھ نے کوڑیوں کے داموں کشمیری قوم کو خرید کر اپنی سلطنت قائم کی۔بد قسمتی یہ ہے کہ ہر دور میں کشمیری خود جا کر دوسروں کو اپنے اوپر حکمرانی کی دعوت دیتے رہے۔ریاست کشمیر کا نقشہ اس وقت بھی دنیا میں موجود تھا جب پاکستان اور بھارت نہیں بلکہ برصغیر تھا۔ کشمیری ایک بہادر اور نڈر قوم کے طور پر ہمیشہ تاریخ کا ایک حصہ رہیے ہیں۔ سکندر اعظم، محمود غزنوی،شہنشاہ اکبر کے علاوہ بے شمار غیر ملکی سیاحوں نے کشمیریوں کو ان کی بہادری و شجاعت کی وجہ سے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور لکھا کہ ان کو دشمنی سے فاتح کرنا ممکن نہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ کشمیریوں کو جس نے بھی زورزبردستی اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کی ان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ کشمیریوں کے ساتھ ظلم و زیاتی کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا جس کے خلاف کشمیریوں نے ہمیشہ مختلف تحریکوں کے ذریعیآواز بلند کی اور کامیابی حاصل کی۔ان میں زیادہ تر تحریکوں نے پونچھ سے جنم لیا، پونچھ کی اپنی ایک تاریخ ہے یہ لوگ کبھی بھی کسی کے ماتحت رہنا پسند نہیں کرتے ہیں جو ہمیشہ سے ریاست کشمیر پر حکمرانی کرنے والوں کے لیے درد سر بنے رہے۔ 1832 میں گلاب سنگھ نے بازور طاقت ان کو عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے منگ کے مقام پر زندہ کھالیں کھنچوائی اس درد ناک واقعے کے بعد اگر کوئی اور قوم ہوتی تو شاہد گم نامی کی زندگی میں چلی جاتی، اتنے ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی، 1899 میں دھرتی پونچھ سے ہی سردار بہار علی خان نے تحریک حقوق ملکیت کی تحریک شروع کی جس کے بعد کشمیریوں کو ان کی زمینوں پر ان کا حق واپس ملا، 1930 کے بعد کشمیریوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا تو انہوں نے آزادی کی تحریک شروع کی جو 1947 میں جا کر اختتام پذیر ہوئی، آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ کشمیریوں نے خود مہاراجہ کی فوج سے آزاد کروایا تھا اور رضا کارانہ طور پر اپنا انتظامی نظام پاکستان کے حوالے کیا۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے یہ کشمیر کی تاریخ رہی ہے کہ ہر دور میں کشمیری اپنے اوپر دوسروں کو حکمرانی کرنے کی دعوت خود دیتے رہے 1947 میں بھی ایسا ہی ہوا وہ کشمیری جو صدیوں تک اکھٹے رہے وہ ایک خونی لکیر کیذریعے 1947 میں الگ ہو گے کچھ مقبوضہ کشمیر اور کچھ آزاد کشمیر میں تقسیم ہو کر رہ گے۔ 1948کے بعد کشمیر کے رہنماوں نے سیاست کی دوڑ میں ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیا۔ صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور مسلم کانفرنس کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے سردار محمد ابراہیم خان صاحب کو صدارت سے ہٹایا گیا تو 1955 میں پونچھ میں ایک بار پھر بغاوت شروع ہو گی اس بغاوت کو دبانے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری آزاد کشمیر بھیجی گئی جب بغاوت دیگر علاقوں میں پھیلنے لگی تو طاقت کا استعمال بند کرنا پڑا۔ 1958 میں ایک بار پھر جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان کیا گیا جس میں کشمیری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا اور یہ تحریک پاکستان میں مارشل لاء لگنے کے بعد ختم ہو گئی۔ 1968 میں جب مقبول بٹ جب سرینگر جیل توڑ کر آزاد کشمیر آئے تو ان کو مظفرآباد قید کر دیا گیا کشمیریوں نے مقبول بٹ کی رہائی کے لیے زبردست احتجاجی مظاہرے شروع کیے جس کے ردعمل میں ان کو رہا کر دیا گیا۔ 1992 میں ایک بار پھر جنگ لائن توڑنے کا اعلان کیا گیا تو ہزاروں کشمیری پھر سر پر کفن باندھ کر نکلے تو نہتے قافلوں پر فائرنگ کی گی جس کے نتیجے میں سات کشمیری شہید ہوئے تھے،2019 میں ایک بار پھر کشمیریوں نے چناری چکوٹھی کی طرف مارچ شروع کیا جس کو ایک سازش کا نام دے کر جسکول کے مقام پر روک دیا گیا۔ 2023 میں آزادکشمیر کے شہر راولاکوٹ میں چند لوگوں نے مل کر آٹے اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف ایک دھرنا شروع کیا جس کی گونج جلد ہی پورے آزاد کشمیر میں سنائی گی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تشکیل کے بعد بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنے بلز نذرِ آتش کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی غباروں کے ساتھ باندھ کر ہوا میں اڑئے تو کبھی دریاؤں کی موجوں کی نظر کیے۔حسب معمول حکومت نے پھر اس تحریک کو دبانے کے لیے اپنے لوگوں پر ایف آئی آر درج کیں لیکن یہ تحریک اپنے زور و شور سے جاری رہی۔اس دوران لولی پاپ کے طور پر کچھ مزکرات بھی ہوئے جس میں یہ کہہ کر عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گی کہ حکومت تمام مطالبات مانے کے لیے تیار ہے۔ جب لولی پاپ کی مدت پوری ہوئی تو عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں لوگ دوبارہ سڑکوں پر نکلے۔ کمیٹی کی کال پر ہر ضلع سے لوگ جوق در جوق مظفر آباد کی طرف رواں دواں ہوئے۔ اس احتجاجی تحریک کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی لیڈ کر رہی تھی۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک چارٹرآف ڈیمانڈ پیش کر رکھا تھا جس کی منظوری تک ہر صورت احتجاج جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔آزاد کشمیر حکومت نے پاکستان سے فورسیسز بلائی تھی جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے پایا جا رہا تھا، 10 مئی کو ڈڈیال میں ایک ناخوشگوار واقعہ کی وجہ سے مقررہ تاریخ سے پہلے ہی مارچ کا آغاز ہو گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں جب لوگ اپنا حق لینے کے لیے مظفرآباد کی طرف نکلے تو اقتدار کی لالچ میں مست حکومت کو خیال آیا کہ بات تو اب ہاتھ سے نکل رہی ہے تب مزکرات کیلیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دییبلاآخر عوام اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی۔ اس تحریک کے دوران پر تشدد واقعات بھی پیش آئے جس میں ایک پولیس آفیسر سمیت تین قیمتی جانوں کا ضائع ہوا تینوں جوان مظاہرین رینجز کی سٹیٹ فارئنگ سے اس وقت شہید ہوئے جب مطالبات منظور کیے جا چکے تھے۔ یہ ایک غیر سیاسی تحریک تھی جس میں عوام اپنی تمام تر سیاسی وابستگیوں کو چھوڑ کرصرف اپنے حقوق کے لیے نکلی۔ ماضی میں بھی کشمیری قوم کو جب کبھی بیرونی جارحیت کا سامنا ہوا انہوں نے اپنے تمام اختلافات کے باوجود متحدہ ہو کر اس جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کا میابی حاصل کی لیکن جو نہی حالات پر امن ہوئے اتحاد و یکجہتی کی فضا پارہ پارہ ہوئی اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ تاریخی کامیابی کے بعد حسب روائت کچھ لوگ نے پھر اپنے سیاست دانوں کے لیے مورچے سنبھالے۔ سیاست دانوں کی مخالفت وجہ تو سمجھ آتی ہے وہ ان کی مجبوری ہیکہ اپنی روزی روٹی بچانے کے لیے اس تحریک کو بھی بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں ایک بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جو بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے وہ ایجنٹ اور غدار کیسے ہو جاتا ہے ماضی میں بھی اے کے مولوی فضل حق،فاطمہ جناح، کے ایچ خورشید، جی ایم سید، سہروری اور شیخ مجیب الرحمان جیسے اور کتنے لوگ ہیں جو حقوق کی بات کرنے پر غداری کا تاج اپنے سر پر سجائے دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر دونوں اس تحریک کو غداری سے جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہیں ہیں ۔حالانکہ یہ تحریک بنیادی انسانی حقوق آٹے اور بجلی سے متعلق تھی اس میں الحاق پاکستان، ہندوستان یا خودمختار کشمیر کی کو ئی بات تھی ہی نہیں۔ادھر ہندوستانی میڈیا اوچھل اوچھل کر روپوٹنگ کر رہا ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ آزاد کشمیر کئی نہیں جا رہا ابھی تو بھارت سے 75 سالہ ظلم و ستم کا بدلہ لینا باقی ہے یہاں پر اس نے نا جائز قبضہ کیا ہوا جس دن آزاد کشمیر کی عوام نے بھارت کی طرف رخ کیا تھا توعقل ٹھکانے آ جانی ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں ایک جھنڈے کو لے کر غداری کے سرٹیفیٹک تقسیم کیے جارہے ہیں کہ جھنڈے کی بے حرمتی کی گئی اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے ایسی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں جس کی تردید بھی کی گی ہے۔ کوہالہ کے مقام پر اکثر اوقات آتے جاتے اس کی حالت دیکھی تھی جو ہوا میں لہراتے لہراتے خستہ حال اور پھٹ چکا تھا،اگر کشمیریوں نے پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کرنی ہو تی تووہ کبھی بھی اپنی لائشوں کو پاکستانی پرچم میں لپٹ کر قبر میں جانے کی خواہش نہ کریں تمام سرکاری عمارتوں،دفاتر اور ہر جگہ کشمیری جھنڈے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جھنڈے کی تصویر نظر نہ آئے۔اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو کشمیر کو اپنی شہ رگ کہنے والے ملک میں آپ کو کسی بھی ایک جگہ کشمیری جھنڈا نظر نہیں آئے گا ۔ مختصریہ کہ غداری والے چوران کا طریقہ واردات اب بہت پرانا ہو چکا ہے اب لوگوں میں شعور آ چکا ہے جیسا کہ تاریخ میں ہے کہ کشمیریوں کو دشمنی سے کبھی فتح نہیں جا سکتا اس لیے ایسے زور و زبردستی والے طریقوں سے اجتناب کیا جائے۔خدارا ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن کی وجہ سے کشمیریوں اور پاکستانیوں میں نفرتیں پروان چڑھیں۔ زبردستی سڑکوں پر گاڑیوں کو روک کر ان پر پاکستان کا نام لکھنے سے پیار نہیں بڑھے گا بلکہ ایسے فعل نفرت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر شرپسند عناصر تھے جو ایجنٹ اور غدار تھے بقول آزاد کشمیر اور پاکستانی حکومت کے تو ان کو ڈھونڈ کر سامنے لا کر سزا دی جائے جو ہر محب وطن انسان کا مطالبہ ہے ۔ اگر پھر بھی کشمیر اور پاکستان کے مابین محبت،اخوت اور بھائی چارے میں شک ہو تو آزاد کشمیر کی حکومت کی پاکستان سے اس محبت کو ہی دیکھ لیں جو حلف لینے کے بعد پوری کابینہ کی فوج کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے نظام کو چلاتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں یوں تو ایک صدر، وزیراعظم، کابینہ، اسمبلی، ہائی کورٹ سپریم کورٹ بھی ہے آزاد کشمیر میں اب تک جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے اس میں پاکستان کی وفاقی حکومت کا ہمیشہ سے داخل رہا ہے۔ آخر میں ایک بات عرض کرتی چلوں ہر جگہ کچھ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کا کام ہی بنے ہوئے کام کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ میری نظر میں کچھ ایسے ویڈیوز کلپس گزرے ہیں جو میں سمجھتی ہوں کم از کم اس تحریک میں نہیں ہونے چاہے تھے اور نہ ہی اس کسی طور پر اس تحریک کے مقاصد تھیجن کی وجہ سے عوامی تحریک پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں باقی یہ ایک خالصتہ عوامی حقوق کی تحریک تھی جس کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔