سارا ہفتہ مسلسل لوگوں سے ملنے کے بعد چھٹی کا دن آیا تو گھر والوں نے گھریلوذمہ داریوں کا احساس دلایا کہ گھر میں بھی آپ کی ضرورت ہے لہذا میں گھر کے کاموںاور مرمت میں مصروف ہو گیا اِس سلسلے میںواش روم کا ایک پرزہ لے کر شہر کی مصروف معروف سینٹری کی دوکان میں داخل ہوا تو دوکان گاہکوں سے اُبل رہی تھی گاہکوں کا رش دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ دوکاندار مقدر کے بلند جھولے جھول رہے ہیں خدا بہت مہربان ہے جو دوکان کے چپے چپے پر گاہک ہاتھوں میں نوٹ پکڑے مالکوں کی منتیں تر لے کر رہے تھے گاہکوں کا رش دیکھ کر دوکاندار احساس تفاخر میں مغرور انداز میں من مانے مزاج اور مہنگے دام وصول کر رہے تھے مجھے جس پلمبر نے اِس دوکان پر بھیجا تھا اُس نے کہا تھا کہ اِدھر ادھر وقت ضائع کر نے کی بجائے فلاں دوکان پر جائیں وہاں پر تقریبا ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے میں نے دوکان کا رش دیکھ کر ماشا ء اللہ کہا کہ دوکان خوب چل رہی ہے میں دنیاوی کاموں میں کم ہی مصروف ہو تا ہوں اِس لیے رش میں ایک طرف کھڑا ہو کر اپنی باری یا ہجوم کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ایک سفید پوش بوڑھا سیل مین میرے پاس آیا اور میرے ہاتھ میں پرزہ دیکھ کر ہلکہ چھو کر بولا آپ یہ لینے آئے ہیں میں نے ہاں میں سر ہلایا تو بولا اگر یہ نیا لیں گے تو ہزاروں روپے خرچ ہو نگے کیوں نہ میںآپ کو یہی ٹھیک کر دوں تو میں خوشدلی سے مسکرایا اور کہاجناب یہ تو آپ کی خاص مہربانی ہو گی نہیں تو میں ہزاروں روپے ساتھ لے کر آیا ہوں تو وہ بولا نہیں یہ بہت تھوڑے پیسوں میں بلکل ٹھیک ہو جائے گا اُس نے میرے ہاتھ سے پرزہ پکڑا اور بولا اگر آپ یہاں مزید کھڑے ہونگے تو دوکان دار یا کوئی سیل مین آپ کو ذبح کر دے گا اِس کو درست کرنے یا ٹھیک راہنمائی کر نے کی بجائے اِس کی جگہ نیا مہنگا پرزہ آپ کو دے دے گا آپ خریدنے پر مجبور ہو نگے آپ میرے ساتھ آئیں اِس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر تے ہیں اب وہ بوڑھا بزرگ نما شخص ہمیں لے کر دوکان کے پیچھے کباڑ خانے کی طرف آگیا جہاں پر بہت سارے پرانے برتن چیزیں پڑی تھیں مجھے کرسی پر بٹھایا اور وہ کباڑ خانے میں غوطہ زن ہو گیا وہ مختلف پرزوں کو اٹھا کر جانچ پڑتال کر تا پھر رکھ دیتا پھر شاید اُس کو مطلوبہ چیز مل گئی اُس کو اٹھا لایا جو ٹوٹ پھوٹ چکی تھی لیکن اُس میں چند کارآمد پرزے بھی موجود تھے باباجی نے اپنے ہتھیار اٹھائے اور اُس بڑے پرزے پر حملہ آور ہو گئے تھوڑی کو شش کے بعد انہوں نے کیل نما چیز نکالی اُس کو میز پر رکھا اب وہ پھر کباڑ خانے میں گھس گئے تھوڑی دیر بعد ایک اور ویسا ہی پرزہ اٹھالائے اُس میں سے بھی مطلوبہ پرزہ نکالا اور میرے خراب پرزے کی طرف متوجہ ہو گئے میں اشتیاق اور احترام بھری نظروں سے بوڑھے ماہر کاریگر کو دیکھ رہا تھا اب ایک پرزہ تو لگ گیا دوسے میں تھوڑی پرابلم آرہی تھی اب باباجی بار بار کباڑ خانے جاتے کوئی پرزہ لے آتے لگاتے پھر چیک کر تے میں مطمئن ہو جاتا کہ بابا جی اب یہ ٹھیک ہو گیا ہے تو وہ کہتے نہیں یہ خراب کرے گا ابھی یہ ٹھیک نہیں ہوا وہ اپنے کام اور اوزاروں میں لگے تھے کبھی کوئی چیز لگاتے کبھی اتارتے پھر چیک کرتے بار بار چیک کر تے پھر میری طرف دیکھ کر تبسم آلود لہجے میں بولتے آپ نہیں جانتے یہ چند دنوں میں پھر خراب ہو جائے گا اِس کو مکمل ٹھیک کر نا ہے جب تک میںمطمئن نہیں ہوں گا آپ کو نہیں دوں گا باباجی کے رویے سے میں پوری طرح متاثر ہو چکا تھا کہ وہ باقی گاہکوں کو چھوڑ کر صرف میرے کام پر لگے ہوئے تھے وہ کام سے جان نہیں چھڑا رہے تھے جو ہمارے معاشرے کا وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر بندہ دوسرے کے کندھے پر کام چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اپنی جان چھڑاتا ہے خود کو مشکل میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے میں بچپن سے حضرت انسان کا مطالعہ کر تا آیا ہوں باباجی کی اپنے کام سے محبت ایمانداری خلوص میرے سے حیران کن تھے کہ اِس مادیت پرستی کے دور میں جب پر طرف مہنگائی کا اژدھا منہ کھولے لوگوں کو ہڑپ کئے جا رہا ہے لوگ پیسے پیسے کو ترس رہے ہیں مارا ماری کا دور ہے ایسے دور میں باباجی جیسا مزدور کیسے ایمانداری کا چوغا پہنے ایمانداری کی مشعل روشن کئے کھڑا ہے باباجی کافی محنت کے بعد کامیاب ہو گئے خراب پرزے میں دو چھوٹے چھوٹے پرزے لگا کر اُس کو نیا کر دیا کامیاب مسکراہٹ سے میرے طرف دیکھا اور بولے لو جناب اب آپ کو نیا پرزہ نہیں لینا پڑے گا یہی آپ کا کام کر ے گا میں بھی بہت خوش ہوا کہ مسئلہ کامیابی سے حل ہوا جیب سے روپے نکالے اور باباجی سے پوچھا جناب آپ کو کیا نذر کروں تو باباجی کا جواب سن کر میں منجمد فریز ہو کر رہ گیا جم سا گیا باباجی بولے دو سو روپے دے دیں جبکہ میں دو ہزارکے لیے تیار تھا کیونکہ نیا پرزہ سات سے دس ہزار کا آنا تھا اور باباجی صرف دوسو روپے مانگ کر مجھے حیران کر رہے تھے میں نے ہزار کا نوٹ نکالا ادب سے باباجی کی طرف بڑھا یا اور کہا باباجی آپ نے میرا مسئلہ حل کیا یہ ہزار رکھ لیں تو باباجی نے نوٹ پکڑا اپنی ویسٹ کوٹ کے اندر سے آٹھ سو روپے نکال کر میری طرف بڑھا دیے اور بولے مجھے رزق حلال سے دور نہ کریں ورنہ انگلی آسمان کی طرف کی اور بولے سوہنا ناراض ہو جا ئے گا میری دنیا کے ساتھ آخرت بھی خراب ہو جائے گی میں نے باباجی کو مصافحہ کیا ان کے ہاتھ چومے جو نیک مزدور کے ہاتھ تھے دوکان سے نکل آیا لیکن آنے سے پہلے میں باباجی کے شاگرد کا نمبر لے آیا تھا میں تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا کہ ایک عام دوکان پر یہ ہمالیہ سے اونچا مزدور کس طرح رزق حلا ل کی شمع جلائے کھڑا ہے رات کو میں نے باباجی کے شاگرد کو فون کیا جو دوکان میں باباجی کی مدد کر رہا تھا اور پوچھا بیٹا یہ بتائو یہ باباجی کون ہے تو وہ بولا یہ ولی انسان ہیں جوانی میں پلمبر تھے تو کسی درویش کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے روحانی ترقی کے ساتھ دنیاوی ترقی کرتے کرتے اپنی بہت بڑی دوکان بنالی مغرور ہو ئے عورتوں میں پڑ گئے مرشد ناراض ہو گئے تو انہوں نے روحانی طاقت واپس لے لی باباجی باطن سے خالی ہو گئے تو مرشد کے قدموں سے لپٹ کر معافی مانگی مرشد نے حکم دیا ساری دولت خدمت خلق میں بانٹ دو اور باقی زندگی نیک مزدوری کرو تو باباجی نے ساری دولت لٹا دی اب بیس سالوں سے مختلف دوکانوں پر رزق حلال کماتے ہیں اگر دوکان دار تنگ کرے تو اگلی دوکان پر چلے جاتے ہیں شاگرد دیر تک باباجی کی تعریفیں کر تا رہا اور میں سوچ رہا تھا یہ نیک مزدور جو ہمالیہ سے اونچے ہیں جن کے سامنے منا فق ریا کاری دانش ور عالم دین کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں
ایسے بزرگوں سے ہی دھرتی پر امن ہے ۔
0 55 5 minutes read