
قربانی کرنا ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو گا جو صاحبِ استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے۔ یہ اسلام کا ایسا رکن ہے جس کی ادائیگی مسلمان بڑے شوق اور مذہبی جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ قربانی کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جانور کا گوشت کھانا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو قربانی کے دنوں میں انتہائی مہنگے جانور کوئی نہ خریدتا بلکہ عام دنوں میں نصف سے بھی کم قیمت میں وہی جانور خرید لیے جاتے۔ مقصد سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی ہوتا ہے۔ جب فرض کی ادائیگی میں ذاتی شوق اور مذہبی جذبہ بھی شامل ہو جائے تو ایک خوشگوار احساس اور پرسکون کیفیت بندے پر طاری ہو جاتی ہے۔
قربانی کے لیے بعض لوگ جانوروں کی پرورش کاروباری نقطہ نظر سے بڑی احتیاط اور محبت سے کرتے ہیں۔ جانوروں کو وہ طاقتور اور قیمتی خوراک کھلائی جاتی ہے جو وہ خود بھی گھر میں نہیں کھاتے۔ وہ انہیں مکھن کے پیڑے، پھل، چنے اور دوسری طاقتور غذائیں کھلاتے ہیں۔ جب عیدالاضحیٰ سے چند دن پہلے ان جانوروں کو فروخت کے لیے منڈی میں لایا جاتا ہے تو خوب محنت سے پالے ہوئے ان جانوروں کے جسموں کی چمک (Glow) دیکھنے والوں کی فوری توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ منڈی میں آپ کو ایسے بکرے بھی مل جاتے ہیں جن کا وزن ڈیڑھ سے دو من تک ہوتا ہے۔ مال دار حضرات ایسے جانوروں کی خریداری میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر ڈیڑھ من گوشت کی قیمت کا حساب لگایا جائے تو ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ قیمت بنتی ہے مگر ایسا جانور بخوشی چھ سات لاکھ روپے میں خرید لیا جاتا ہے۔ اسی طرح خصوصی طور پر پالا گیا سات آٹھ من وزنی بیل چالیس سے پچاس لاکھ روپے میں بھی خرید لیا جاتا ہے۔
سبھی لوگ قیمتی جانور خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نہ ہی تمام جانور اتنے قیمتی ہوتے ہیں۔ شدید مہنگائی کے اس دور میں محدود آمدنی رکھنے والے خصوصاً ملازمت پیشہ حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں قربانی کے لیے سستا جانور مل جائے۔ اکثر لوگ کئی کئی دن مویشی منڈی کے چکر لگاتے ہیں تاکہ انہیں مناسب قیمت پر معقول سا جانور مل جائے۔
قربانی ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ اس میں فرض کی ادائیگی کے لیے عقیدت کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مویشی فروخت کرنے والے بعض ہوشیار بیوپاری جن کا دین ایمان ہی پیسہ ہوتا ہے، لوگوں کی اس عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کم عمر بکروں یا چھتروں کو قربانی کا اہل ثابت کرنے کے لیے مصنوعی دانت لگوا لیتے ہیں۔ جانور کی خوبصورتی کے لیے اور دام بڑھانے کی خاطر انہیں مصنوعی سینگ لگوا دیتے ہیں حتیٰ کہ جانوروں پر پینٹ تک کروا دیتے ہیں۔ مذہبی معاملات میں ہمارے ہاں دھوکہ دہی بہت بڑھ گئی ہے۔ شاید اسی لیے معاشرے سے سکون اور اطمینان اٹھ چکے ہیں۔ بہرحال اناڑی خریدار جو سستا جانور خریدنے کی وجہ سے کسی سمجھدار انسان کو شرمندگی سے بچنے کے لیے ساتھ نہیں لیتے، ان ہوشیار بیوپاریوں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ جب گھر جاتے ہیں تو جانور کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ جانور واپس کرنے کے لیے مویشی منڈی کا رخ کرتے ہیں مگر بنجارے لاد چکے ہوتے ہیں۔
گزشتہ دو تین سال سے جانوروں کی فروخت میں دھوکہ دہی کا ایک نیا طریقہ عام ہو چکا ہے۔ فیس بک پر گروپ بنا کر اس میں اچھے خاصے پلے ہوئے جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں کسی بہت بڑے باڑے یا فارم ہائوس میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کی قیمت انتہائی کم بتائی جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تک آفر دی جاتی ہے کہ آٹھ سو روپے کلو کے حساب سے اپنی مرضی کا زندہ جانور تول کر لے جائیں۔ یہ تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر کئی لوگ لالچ میں آ جاتے ہیں۔ بلکہ اگر انہوں نے ایک جانور خریدنا ہو تو تین چار جانور خریدنے کا پلان بنا لیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک بکرے کی قربانی دی جائے گی۔ باقی دو تین جانور فروخت کر کے اپنی قربانی کی رقم کھری کر لی جائے گی۔ لالچ بری بلا ہے۔ یہ بات زندگی میں ہر موقعے پر درست ثابت ہوتی ہے۔ خریدار بتائے ہوئے مقام پر پہنچتا ہے۔ دیے گئے نمبر پر فون کر کے فارم ہائوس یا باڑے کا پتا پوچھتا ہے تو اسے انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل پر دو لوگ آ کر اسے درمیان میں بٹھا کر لے جاتے ہیں یا کوئی کار آ کر اسے لے جاتی ہے اور پھر گھر والوں کو فون آتا ہے کہ آپ کا بندہ اغوا ہو چکا ہے۔ اتنی رقم لے کر آ جائو اور بندہ لے جائو۔ اگر رقم پہنچانے میں دیر ہو جائے تو مغوی پر شدید تشدد کی ویڈیو ارسال کر دی جاتی ہے۔
عید قربان میں چند دن رہ گئے ہیں۔ قربانی کا جانور خریدتے وقت مکمل احتیاط کیجیے۔ جانور خریدتے وقت کسی ایسے آدمی کو ساتھ رکھیے جسے جانوروں کی سمجھ ہو۔ اور ہاں۔۔۔۔، جانوروں کی آن لائن خریداری سے مکمل پرہیز کیجیے۔