کالم

انجام جان ظالم اور متکبر کا

ہمارے معاشرے میں حسد ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے حسد سے مراد کسی بھی شحض کو رب کی طرف سے دی گئی نعمت پر زوال کا طلب کرنا اور یہ سوچنا کہ یہ چیز اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے ہوتا ہے دیکھا جائے تو حسد رب کی تقسیم پہ اعتراض ہے حسد وہ راستہ ہے جس کے باعث انسان خود کو سب سے اعلی و ارفع سمجھتا ہے اور دوسروں کو ادنی و کمتر سمجھتا ہے اور دوسروں پہ ظلم و ستم کرتا ہے ان کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے اور معاشرے کا امن و برباد کرتا ہے یعنی کہ حاسد ہی ظالم و جابر ہوتا ہے درحقیقت حسد ہی ظلم کرنے کی طرف لے کر جاتا ہے اس کرہ ارض پہ سب سے پہلا قتل قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا حسد کی بنیاد پر ہی کیا تھا حسد کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اسی لئے ارشاد نبوی ہے کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بغض نہ رکھو ایک دوسرے کے مقابلے میں حسد نہ کرو ایک دوسرے کے مقابلے میں قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جا صحیح بخاری 6065 کیونکہ اگر کسی کو کوئی نعمت جیسے کہ حسن ،پیسہ،گھر،گاڑی،اولاد و دیگر آسائشیں ملی ہیں تو وہ رب کی طرف سے ہی ہیں کیونکہ اگر انسان کے بس میں یہ آسائشیں حاصل کرنا ہوتا تو ہر بندہ ضرور حاصل کرتا مگر یہ تو رب کی عطا ہے جسے چاہے عطا کرے اور جسے چاہے محروم رکھے سو حسد نہیں بلکہ شکر و سدا دعا کی شکل میں کرنی چائیے کہ الہی میں بھی تیرا بندا ہوں مجھے بھی عطا کراسی حسد بارے ارشاد باری تعالی ہے م یحسدون الناس عل ما آتاہم اللہ مِن فضلِہِ (4-النسا:54 )بلکہ یہ لوگوں پر اس چیز میں حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے اور فرمایا :ود ثِیر مِن ہلِ الِتابِ لو یردونم مِن بعدِ ِیمانِم فارا حسدا مِن عِندِ نفسِہِم (2-البقر:109 ) بہت سے اہل کتاب کی خواہش ہے کہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد دوبارہ کافر بنا لیں اپنے نفسوں کے حسد کی وجہ سے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاسد کسی کو اللہ کی طرف سے دی گئی نعمت پر بجائے شکر کے اس کی تباہی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے میں آج آپکو اپنے دیکھے ہوئے ایک حقیقی حاسد کی ہڈ بیتی سناتا ہوں تاکہ ہم عبرت حاصل کریں یہ 2000 کی بات ہے اس شحض کے 5 بیٹے تھے اور اس کا کاروبار اچھا تھا نیز اثر و رسوخ والا بھی تھا اور پولیس کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اس کا کام تھا علاقے کی بہو بیٹیوں پہ جملے کسنے اور شرفا کو گالیاں دینا اور بعض اوقات مارنا بھی شرفا لوگ بیچارے ڈرتے تھے اور رب سے فریاد کرتے تھے کہ الہی اس ظالم سے تو ہی بچا اور اس کا خانہ خراب فرما وقت گزرتا گیا اس کے بچے بڑے ہوتے گئے بجائے پڑھنے لکھنے کے انہوں نے عیاشی کرنا شروع کر دی بات اس تک پہنچی تو اس نے ظنز کرتے ہوئے کہا میرے بیٹے ہںں اگر کسی کی بہو بیٹی سے بات چیت کر لیتے ہیں تو وہ عورتیں نا کریں اور اگر وہ زبردستی بات چیت کر بھی لیتا ہے تو ان کا کیا جاتا ہے لڑکے جوان ہیں کوئی بات نہیں لوگ اس سے تنگ ہوتے گئے اور آخر اس کا بڑا بیٹا نشے پہ لگ گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پانچوں بیٹے نشے پہ لگ گئے اور اس کی بڑی بیٹی جو لڑکوں سے بڑی تھی رشتے نا ملنے کے باعث گھر میں بیٹھی رہی وقت گزرتا گیا اس کی خوشحالی بدحالی میں بدلتی گئی اور اس کے معاون لوگ اس کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے خدا کی کرنی ایک دن عادت سے مجبور اس نے محلے کے ایک شریف و غریب کو گالی دی تو اس شریف نے اس کی خوب دھلائی کی اپنی دھلائی پہ اس نے اپنی سابق زندگی کے یاروں دوستوں کو پکارا مگر کوئی نا آیا وقت گزرتا گیا جن لوگوں پہ ظلم کرتا تھا وہ لوگ اب اس کو اس کی اوقات دکھانے لگ گئے حتی کہ وہ بندہ اس قدر مجبور ہو گیا کہ اپنی انا کو اتار کر لوگوں سے پیسے مانگنے پر آ گیا حتی کہ گھر کے حالات یہ ہو گئے کہ اس کی دوسری جوان بیٹی گھر سے بھاگ گئی بڑا بیٹا نشے کے باعث مر گیا باقی چار کبھی کہیں نشہ کرکے پڑے رہتے تو کبھی کہیں اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور گھر میں جوان بیٹی بھی موجود تھی جس کی شادی نا ہو سکی ایک دن ایک لڑکا آیا اسی کے سامنے اس کی بیٹی کو بٹھایا اور رفو چکر ہو گیاکسی محلے دار نے آواز کسی کہ جوان ہے جاتی ہے کسی ساتھ تو جانے دے کیا بگڑ جائے گا؟یہ منظر دیکھ کر وہ رونے لگا ،چیخنے چلانے لگا ایک بیٹی پہلے ہی گھر سے بھاگ گئی تھی اب دوسری بھی بھاگ گئی بیوی فوت ہو گئی تھی اور بڑا بیٹا نشے سے مر گیا تھا اب باقی چار بیٹے سڑکوں پہ نشہ کرکے پڑے رہتے اور گلی کے بچوں ان کو ٹھڈے مارتے وہ یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا مگر اب کسی کو کچھ کہنے کے قابل نا تھاِوہ آج بھی زندہ ہے مگر اس کا اب صرف ایک ہی بیٹا زندہ یےِایک اور بیٹا نشے سے مر گیا جبکہ ایک لاپتہ ہو گیا جس کا تاحال کوئی پتہ نہیںوہ اب بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور گلی میں بیٹھ کر لوگوں سے پیسے مانگتا ہے ِبچے اس کو ٹھپڑ مارتے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتاِسچ کہتے ہیں ہر عروج کو زواج ہے اللہ تعالی ہم سب کو حسد اور ظلم سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button