پاکستان کی تقریبا 70 فیصد آبادی بنیادی ضروریات سے محروم ہیاورصرف چند فیصد آبادی پرتعیش زندگی گزار رہی ہے۔کچھ فیصد آبادی مناسب طور پر اپنی زندگی گزار رہی ہیلیکن اب وہ متوسط طبقہ بھی بے چین ہو چکا ہے کیونکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کرپارہا۔ایک طرف اتنی غربت اور دوسری طرف عیاشی کی زندگی،پاکستان میں عجیب تر صورتحال بن چکی ہے۔وہ طبقہ جو عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے،پاکستان پربوجھ بن چکا ہے۔قرض کا پہاڑ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جو قرض لینے کے ذمہ دار ہیں ان کو پرواہ ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟غریب طبقہ خود کشیاں کر رہا ہے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور امیر طبقہ اس بات سے بے چین ہے کہ ان کی زندگی مزید کیسے پر سہولت بنے؟یہ نظام کسی ملک کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔پاکستان میں بھی امیر طبقے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے،اس کا فوری طور پر سدباب کرنا ہوگا۔اگر سد باب نہ کیا گیا تو یہ نفرت بڑھ کر ایک انتشار کا سبب بن جائے گی۔قرض لے کرپاکستان کوگروی رکھ دیا گیا ہے۔پاکستان میں جو بھی پالیسی بن رہی ہے وہ آ۔ایم۔ ایف اورقرض دینے والے ممالک کی مرضی کی مطابق بن رہی ہے۔قرض دینے والے ممالک ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جس سے عام آدمی کی زندگی مزیدذلت آمیز ہو جاتی ہے۔پاکستان کے سیاستدان اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ عام آدمی ان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔کبھی کبھار یہ ڈرامہ دیکھنے کو مل جاتا ہے کہ سیاستدانوں کوان کے سپورٹرز اس طرح نجات دہندہ بنا پیش کر دیتے ہیں کہ فرد سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسی ڈرامے بازیاں صرف پاکستان میں ہیں یا کسی اور ملک میں بھی ہوتی ہیں۔سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ غربت کا گراف روز بروز بلند ہو رہا ہے۔عام آدمی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنا گزارا کس طرح کرے؟سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کی اتنی آبادی جب بڑی مشکل سے زندگی گزار رہی ہے،کیاوہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں یاغربت ان کا مقدر بن چکی ہے؟پاکستان کاہر شہری اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس کو اپنے حقوق ملیں۔حقوق کیا صرف ان افراد کے لیے ہیں جو طاقتور ترین طبقے میں شمار کیے جاتے ہیں۔سترفیصدآبادی کا رہن سہن تکلیف دہ ہے۔افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ کوئی احتجاج تک نہیں کرتا،اگر کوئی احتجاج کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کودبا دیا جاتا ہے یا خرید لیا جاتا ہے۔پاکستان کوآزاد کرانے میں ہرطبقہ نے حصہ لیا تھا،لیکن اب کافی آبادی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو چکی ہے۔پاکستانی قوم نفسیاتی اورسماجی طور پر اتنی بدظن ہو چکی ہے کہ اس کو احساس تک نہیں ہوتا کہ حقوق کس طرح حاصل کیے جا سکتے ہیں؟یہ سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ وسائل پر چند افراد کا حق ہے اور عام آدمی اپنی زندگی ان کی مرضی کے مطابق گزاریں۔کیا کسی فرد نے پوچھا ہے کہ جو قرضہ لیا گیا ہے اس کا عام آدمی کو کتنا فائدہ پہنچا ہے؟صرف ہر دن یہ خوشخبری سنا دی جاتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔سماجی اورآینی لحاظ سے ہر فرد اپناحق حاصل کر سکتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔یہ نہیں سوچا جاتا کہ عام فرد بھی پاکستان کا شہری ہے اور اس کے اتنیہی حقوق ہوتے ہیں جتنے خاص افراد کے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس لیے ہر فرد امیر بننا چاہتا ہے کہ اس کامعیار زندگی بلند ہو جائے اور اس کو ایسی سہولیات مل جائیں جو عام آدمی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔اس سوچ نے اخلاقی طور پر قوم کاستیاناس کر دیا ہے۔امیر بننے کی دوڑ نے منفی رجحان پیدا کر دیا ہے کہ ہر فرد امیر بننا چاہتا ہے چاہے اس کو کتنی قیمت ادا نہ کرنا پڑے۔کرپشن کرنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ امیر بن جائے۔اس سے عام آدمی میں مایوسی پھیل جاتی ہے کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ فلاں فرد امیر بن کر ایسی مراعات کا حقدار بن گیا ہے،جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھاتواس سے قوم کا اخلاقی زوال شروع ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ تعلیم بھی اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والا امیر ہو جائے۔امیر بننے کی سوچ معاشرہ اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔پاکستان کی نازک پوزیشن اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ فوری طور پر اس سوچ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔منفی سوچ کی بجائے مثبت سوچ قوم میں پیدا کی جائے۔پاکستان کے ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں توانتشار نہیں پھیل سکتا۔پاکستان میں جو دو طبقاتی نظام چل رہا ہے اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ہر فرد کے ذہن میں بٹھاناضروری ہے کہ ایک ہی نظام کسی قوم کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔جس معاشرے میں عدل و انصاف ختم ہو جائے تو وہ معاشرے زوال کا شکار ہو کر برباد ہو جاتے ہیں۔مقتدر طبقے کو سوچنا ہوگا کہ عام آدمی کا بھی پاکستان کے وسائل پر اتنا حق ہے جتنے وہ حقدار ہیں،تو اس سے بے چینی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستانی قوم کو بیدار ہونا ہوگا اور اس بات کا احتجاج بھی کرنا ہوگا کہ پاکستان میں دو طبقاتی نظام ختم ہو جانا چاہیے۔پاکستان میں دو طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے معمولی سی کوشش درکار نہیں ہوگی بلکہ ایک لمبی جنگ لڑنا پڑے گی۔موجودہ نسلوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا پاکستان نہ چھوڑیں جہاں وہ مایوس ہوں۔انے والی نسلوں کو ایسا پاکستان دینا ہوگا جہاں دو طبقاتی نظام نہیں ہوگا بلکہ ایک ہی نظام ہوگا اوروہ نظام سب کے لیے یکساں ہوگا۔عام آدمی جوموجودہ نظام سے بدظن ہو رہا ہے،اس کی امید ٹوٹنی نہیں چاہیے بلکہ وہ اس بات کایقین حاصل کر لے کہ وہ جلد ہی ایسے نظام میں زندگی گزارے گا جہاں اس کواپنے حقوق اسانی سے مل سکیں گے۔یہ درست ہے کہ پاکستان ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہیکہ عام پاکستانی اذیت کا شکار ہو چکا ہے،مگر یہ امید ٹوٹنی نہیں چاہیے کہ جلد ہی اذیتوں سے نکل جائے گا۔پاکستان کو اللہ تعالی نے کئی نعمتیں عطا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا ہر پاکستانی کا حق ہے،یہ نعمتیں چند فیصد پاکستانیوں کے لیے نہیں ہیں۔پاکستان کے وسائل بے پناہ ہیں،ان کا استعمال درست طریقے سے کر دیا جائے تو یقینا پاکستانی قوم جلد ہی نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے مثبت اور تعمیری سوچ اپنانی ہوگی اورپوری قوم کو مل کر ہی اس نظام کوسدھارناہوگا۔
0 34 4 minutes read