ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ویسے نہیں ہیں ،جیسے کہ ہونے چاہیے تھے ایران ہم سے زیادہ اسٹیبلشڈ اور تاریخی حیثت کا حامل ہے ،اس کی زبان ہی علم کی زبان ہے ،کلچر بڑا تابناک ہے ،ایران میں پہلے بادشاہ کا دورتھا اب جب سے انقلاب کے بعد عوامی دور شروع ہوا ہے ایران کی قیادت بھی بہت ہی عالم فاضل ہے ،اور اپنی قوم کی قابل قدر رہنمائی کررہی ہے ،عوامی قیادت آنے کے بعد ایران کی حکمت عملی بھی تبدیل ہو ئی ہے اور اب ایران کی جانب سے خطے کے ممالک کی جانب بہت زیادہ توجہ دی جارہی ہے،روس کے ساتھ قریبی تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ،اور نہ صرف یہ بلکہ چین کے ساتھ بھی ایران کے تعلقات بہت قریبی ہیں ،مشرق وسطیٰ کے ممالک اور سعودی عرب کے ساتھ بھی روابط میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی معاملات پر اتفاق رائے ہوا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون بھی بڑھ رہا ہے ۔اسی طرح دیکھا جائے تو ایران نے پاکستان کے ساتھ بھی ہمیشہ ہی بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کی ہے اور آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران ہی تھا اور اس کے بعد بھی ہمارے دینی اور علمی رشتے قائم رہے اور ایران کے بارے میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایران مکمل طور پر ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور پاکستان کو بھی کئی شعبوں میں ایران سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ان کی زراعت ، ان کی صنعت اور حرفت اور اور ان کی ترقی سے پاکستا ن کو بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایران ہمسایہ ملک ہے ،مسلمان ملک ہے اور ہمارے ساتھ کسی بھی سرحدی تنازع میں نہیں الجھا ، یہ صفات ایران کو ہمارے لیے اور زیادہ پر کشش ملک بناتی ہیں ،اس لیے یہ امر بہت اہم ہے کہ ہما رے ایران کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہونے چاہیے ۔ہمیں بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے خطے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ،خطے کے ساتھ تجارت کرکے اور معاملا ت کو بہتر بنا کر ہی معاشی ترقی کی راہ بھی ہموار کی جاسکتی ہے ۔ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔میں پہلے بھی اپنی تحریروں میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے حوالے سے لکھتا رہا ہوں ہونا تو یہی چاہیے کہ جن ممالک کے ساتھ سیاسی مسائل بھی ہیں ان ممالک کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات استوار رکھے جائیں اور اس حوالے سے ہمارے پاس چین کی مثال موجود ہے ،چین نے سیاسی تنازعات کے باوجود اپنی بھرپور توجہ اپنی اقتصادی ترقی پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس کی یہی کوشش ہے کہ معاشی طور پر مضبوط ہوا جائے اور اس کی مثال چین کے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات ہیں ،دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنا زعات ہونے کے باوجود دونوں ممالک کی تجارت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور آج بھی دونوں ممالک کے درمیان 120ارب ڈالر کی تجارت موجود ہے ۔ہمیں بھی ان ممالک کی مثال سے سیکھنے کی ضرورت ہے ملکوں کی ترقی کے راستے خطوں کی ترقی سے ہی نکلتے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ خطوں کے ساتھ تجارت کرنے سے نکلتے ہیں ۔تجارت ہوگی اور میل جول ہو گا تو ہی مسائل میں حل ہوں گے یہ منطق بہت قابل قبول نہیں ہے کہ پہلے مسئلہ حل ہو گا تو ہی تجارت کریں گے ۔تجارت سے ہی مسائل کا حل نکلے گا ۔ہر موسم کی فصل کو ملک میں آنے دیں اور فصلوں کو بھارت جانے بھی دیں اس سے نہ صرف اجناس کی قیمتیں کم ہو ں گی کسانوں کو معاشی ترقی ملے گی بلکہ فوڈ سیکورٹی بھی بہتر ہوگی ۔ہمیں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہندوستان سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے تب تک بلوچستان میں بھی امن نہیں آئے گا اور ہمیں اس وقت امن کی شدید ضرورت ہے ،روابط بڑھیں گے تو ہی بہت ساری مشکلات حل ہوں گی ۔بصورت دیگر مسائل میں اضافہ ہی ہو گا ۔اسی طرح افغانستان کا مسئلہ بھی ہے ،افغانستان میں جو بھی حالات ہوں ہمیں افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنے چاہیے ۔افغانستان میں ہم نے روسی مداخلت کی مخالفت کرکے جو دخل اندازی کی اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور ہونا یہی چاہیے کہ جو افغان باشندے عرصہ دراز سے ملک میں رہ رہے ہیں ان کو یہاں پر رہنے دیا جائے اور ان کو معیشت کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے ۔سب افغان لوگ غیر قانونی کاموں میں ملوث نہیں ہیں بلکہ ان میں بہت بڑی تعداد میں کاروباری لوگ بھی موجود ہیں ،جنہوں نے یہاں پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ایک اندازے کے مطابق افغانی شہریوں کو واپس بھیجنے سے یہاں سے 18ارب کا سرمایہ نکل گیا ہے جو کہ یقینی طور پر نقصان دہ بات ہے ۔ہمیں آگے بڑھنے کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے موجودہ پالیسی کسی صورت میں بھی جمہوری پالیسی نہیں ہے اور چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے
اس کی سرح کئی ملکوں کے ساتھ لگتی ہے ،تنازعات بھی بے شمار ہیں ،لیکن اس کے با وجود تجارت جاری ہے ۔چین اگر ہندوستان کے علاقے لداخ میں فوج کشی اور کافی سارے علاقے پر قبضہ کرنے کے باوجود بھی ہندوستان کے ساتھ تجارت جاری رکھ سکتا ہے تو ہم کیوں ہندوستان کے ساتھ تجارت نہیں کررہے ہیں ہمیں سب سے پہلے اپنے مفادات کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ موجود نہیں ہے ۔
0 66 4 minutes read