کالم

پرورش

چھوٹا سا کاروبار ہونے کے ناطے کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک یا عید الفطر کے موقع پرکلائنٹس کو تحائف پیش کیے جائیں شہر کے معروف کاروباری مرکز سے خریداری کے بعد تحائف گاڑی تک پہنچانے کے لیے ایک نوجوان ملازم جس کے چہرے پر جوانی کی علامتیں ابھی ظاہر ہونا شروع ہورہی تھی۔میری مدد کے لیے آیا گاڑی میں ہر ایک آئٹم انتہائی ترتیب سے رکھنے کا سیلقہ مجھے انتہائی مہذب محسوس ہوا تو اس سے بات کئے بغیر نہ رہ سکا میرے پوچھنے پر بیٹا آپ کی کیا تعلیم ہے کہنے لگا انکل میٹرک پاس کیا ہوا ہے میں نے نمبرز کے بارے جاننا چاہا تو 917 جواب ملنے پر ششدر رہ گیا کہ اتنا لائق و ذہین بچہ مزدوری کرنے پر کیوں مجبور ہے۔ میرے اگلے سوال کے جواب میں بتایا کہ میں ایبٹ آباد کا رہائشی ہوں والد صاحب ڈرائیور ہیں بیمار رہتے ہیں بڑاخاندان ہونے کی وجہ سے اخراجات پورے نہیں ہوپا رہے تھے اس لیے مناسب نہیں جانا کہ بیماری کی حالت میں والد صاحب پر مزید بوجھ بنوں۔ پڑھنے کا شوق ہونے کے باوجود ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت کو ترجیح دی یہاں بیس ہزار روپے ماہانہ رہائش و کھانا وغیرہ بھی مل رہا ہے مطمئن ہوں کہ میری وجہ سے والد صاحب کو تھوڑا آرام ملا ہوا ہے۔ زندگی نے ساتھ دیا اور حالات بہتر ہوئے تو تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردوں گا۔ یہ بات سن کر میں نکل آیا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی آگے چلتے ہیں میری رہائش گاہ کے قریب دعوت اسلامی کا جامعہ فیضان عطار ہے یہاں وفاق المدارس کے زیر اہتمام آٹھ سالہ عالم کورس کروایا جارہا ہے جامعہ کی ملحقہ مسجد میں ہر سال رمضان المبارک کے ہر آخری عشرہ میں سنتوں بھرا اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے مبلغ اسلام دوران اعتکاف شرکاء کو دین کے بنیادی عقائد کے ساتھ سماجی و معاشرتی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کی بھی بہترین تربیت دیتے ہیں۔ گھر کے قریب ہونے کی بناء پر میری بھی کوشش رہی کہ پانچگانہ نماز باجماعت ادھر ہی ادا کی جائے وقت ملنے پر تھوڑی دیر کے لیے مجھے بھی تدرس و تدریس کے حلقوں میں بھی شمولیت کا موقع مل جاتا۔ اس آخری عشرہ میں ایک صاحب روزانہ افطاری کے ساتھ ہی یہاں حاضر ہوتے اور نماز تروایح کی ادائیگی تک رکے رہتے۔ختم القران کی تقریب کے موقع پر مجھے بھی زیادہ دیر رکنے کا موقع مل گیاان سے ملاقات اور پھر چند منٹ تک گفتگو ہوئی میں نے روزانہ حاضری کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ میرا بیٹا بھی اعتکاف میں شریک ہے وہ ایک اچھے نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہے اس کی تعلیم سے تو مطمئن ہوں لیکن تربیت کے بارے میں پریشان ہوں کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔میرے پوچھنے پر کیا مطلب جی میں آپ کی بات سمجھ نہ پایا تو وضاحت دیتے ہوئے پھر گویا ہوئے میں ایک ادارہ میں ادنیٰ سا ملازم ہوں جب ملازمت شروع ہوئی تو پہلے دن سے میں نے محسوس کرلیا اس ادارہ میں کرپشن عام ہے لیکن میرا تصور تھا
جب تک یہاں براہ راست پبلک سروس کمیشن سے مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران نظام نہیں سنبھال لیتے کرپشن کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔ سائلین ذلیل و خوار ہی ہوتے رہیں گے انصاف کا بول و بالا ممکن ہی نہیں ہوسکے گا پھر وہ وقت بھی آیا کہ ان کرسیوں پر وہ لوگ بھی پراجمان ہوگئے جن کے بارے میں میرا یقین تھا کہ پڑھا لکھا طبقہ آنے سے حالات میں بہتری آئے گی شہریوں کی بات سنی جائے گی ان کے مسائل کی جانب توجہ دی جائے اور انصاف ان کی دہلیز پر فراہم ہوگا۔ گورنمنٹ نے ان کو اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ بہترین مراعات بھی دیں لیکن ان افسران کو دیکھ کر بھی دل آنسو روتا ہے کہ کرپشن ہنوز جاری ہے بلکہ اس کے ریٹ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں نئے آنیوالے افسران نے نئی گاڑی اور پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں بنگلے کا مالک بننے کیلئے ہر وہ شارٹ کٹ راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جس کی اجازت ملکی قانون اور نہ ہی دین اسلام دیتا ہے انہوں نے فرائض منصبی کو ملی جذبہ سے سرانجام دینے کی بجائے دنیاوی زندگی کی اسائش کو ترجیح دیا ہوں ہے اور نمود و نمائش ہی کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنا لیا ہے ایک اور بات بھی گوش گزار کردوں کہ میرا پڑوسی فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے صاحب فراش ہے اس کے تینوں بیٹے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ بڑے دوبیٹوں کی ملازمت آؤٹ آف اسٹیشن ہونے کی وجہ سے وہ والد کو وقت دینے اور خدمت کرنے سے عاری جبکہ تیسرا بیٹا مقامی شہر و علاقہ میں ہونے کے باوجود ملازمت اور اپنے بچوں کی بہترین پڑھائی کو وجہ قرار دیکر والد صاحب سے دور دوسرے سیکٹر میں آباد ہے ان کی بوڑھی ماں ہی اپنے خاوند کی دیکھ بھال اور سہارا دئیے ہوئے ہے۔ان کی حالت زار اور اولاد کی مجبوریاں اور بے رخی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ آج ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں لاکھوں روپے فیسوں کے عوض اعلیٰ تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن سماجی زندگی کے اصولوں اور آقائے دوجہاں محمدۖ کی سیرت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤوں سے طالبعلموں کے ذہنوں کو روشناس کرانے کا فقدان سامنے آرہا ہے۔
جس کی وجہ سے آج کا تعلیم یافتہ نوجوان ملکی ترقی وخوشحالی والدین کی خدمت بڑوں کے عزت و احترام اور معاشرتی و سما جی رشتوں کو پس پشت ڈال کر ذاتی خوشحالی اور وقتی تسکین کے لیے خود غرضی کی میٹھی جنگل میں مقید ہوکر رہ گیا ہے یہ فکر مجھے کھائے جارہی ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تریبت اور دین سے روشنائی بھی ضروری ہے یہ دو باتیں سنائی اور اجازت لیکر وہاں سے چلے گئے۔ لیکن میرے دل و دماغ میں چند سوالات چھوڑ گئے مجھے اس نوجوان کی بات یاد آرہی تھی کی میں نے اپنے بیمار باپ کا سہارا بننے کے لیے تعلیم کو وقتی طور پر ادھورا چھوڑ کران کا دست وباز بن گیا دوسری جانب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان بیمار باپ پر قسم پرسی کی حالت میں بے یار و مدد کرچھوڑ اپنی ملازمت اور اپنے بچوں کی تعلیم کو ترجیح دیئے ہوئے ہیں اور تیسرا باپ زمانہ کے حالات سے پریشان ہوکر اپنے بچے کو دینی تعلیم اور تربیت کے لیے کوشاں ہے تاکہ یہ عملی زندگی میں نہ صرف میرا سہارا بنے بلکہ معاشرہ کا مہذب اور ملی جذبہ سے سرشار شہری بھی بنے جس کے کردار اور عمل سے معاشرہ بھی مستفید ہو اور اس کی ابدی زندگی میں سنور سکے لیکن میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اگر ہم اولاد کی لقمہ حلال سے پرورش سے کریں تو وہ نہ صرف آخری وقت تک والدین کا سہارا بنے رہیں گے بلکہ کی والدین دعائیں اولاد کے روشن مقدر و نصیب کا سبب بنی رہیں گی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button