کالم

بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟

بلاشبہ پھول جیسے بچے کسی بھی گھر کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتے ہیں جہاں وہ چھ گھنٹے سکول میں گزارتے ہیں وہیں, اٹھارہ گھنٹے والدین کے پاس ہوتے ہیں۔ اسی لئے والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پھر اس میں ماں کا کردار تو کلیدی ہوتا ہے۔ اگر والدین اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا ئیں تو اس سے ان بچوں کے لئے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر والدین اس سے پہلو تہی کریں تو یہی بچے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں وہ بچوں کی بہترین پرورش کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں وہاں باقاعدگی سے اپنے بچوں کی سکول ڈائریاں بھی چیک کریں۔ نیز سکول انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کریں بچوں کو ٹیسٹ کے لئے تیار کرنے اور ہوم ورک کی نگرانی کریں۔ ان تمام امور کے لئے گھر کے اندر ٹائم ٹیبل آویزاں ہو بچوں کے کھیل کود، مسجد جانے آور ہوم ورک کے لئے ٹائم فریم ہونا چاہئے تاکہ ہر کام وقت پر ہو سکے۔ اسی طرح مہینے میں ضرور ایک دفعہ سکول وزٹ کیا جائے تا کہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی سے واقفیت ہوتی رہے۔آ پ کے پاس سکول کے فون نمبر ہونے چاہئیں تاکہ کلاس ٹیچرز کے ساتھ بچوں کی کارکردگی پر تبادلہ خیال بھی کیا جا سکے ۔شاندار رزلٹ آنے پر نہ صرف بچوں کی بلکہ اساتذہ کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ٹیچرز کی طرف سے اگر مثبت رسپانس نہ ملے تو اس سلسلے میں پرنسپل سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ والدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے معمولات پر غیر محسوس انداز میں نظر رکھیں اگر ان کے رویوں میں تبدیلی محسوس ہو تو بچوں سے اس بارے میں ضرور استفسار کریں۔ بچوں کو موبائل فون بوقت ضرورت ہی دیا جائے ان کو الگ بیڈ روم میں موبائل فون کے استعمال کی اجازت درست نہیں بلکہ انٹرنیٹ، موبائل گھر میں آزادانہ جگہ پر موجود ہوں تا کہ جدید ٹیکنالوجی کا موزوں اور درست طریقے سے استفادہ ممکن ہو سکے۔بچوں کے موبائل سیکیورٹی کوڈ، انٹرنیٹ اور PCs پاس ورڈ والدین کو معلوم ہونے چاہئیں، کبھی کبھار والدین بچوں کے ساتھ بیٹھ جایا کریں. اس سے معصوم بچوں کو اپنا سفر درست سمت میں رواں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔جہاں موبائل کا حد سے زیادہ استعمال بچوں کی ذہنی نشوونما پر برے اثرات مرتب کرتا ہے، وہیں منفی استعمال بھی مضر ثابت ہو سکتا ہے بچوں کو اعتماد دیں تاکہ وہ اپنا مسئلہ کھل کر والدین کے ساتھ بیان کر سکیں بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ متوازن ہونا چاہئے۔ حد سے زیادہ غصہ بچوں میں نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے اور بیجا تنقید بچوں میں بزدلی پیدا کرتی ہے۔ بے پناہ لاڈ پیار بچوں میں لاپرواہی کے جذبات پروان چڑھاتا ہے۔ لہذا اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جس سے ان کے اندر اچھی صفات فروغ پائیں گی اور بری صفات کی بیخ کنی کرنے میں مدد ملے گی۔ بچوں سے گھریلو کام کاج بھی کروانے چاہئیں۔تاکہ ان میں خود اعتمادی و خود انحصاری کے رویئے پیدا ہوں اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بچہ، بچی اپنا کام خود کرے ۔بستر بچھانا، صفائی کرنا، جوتے پالش کرنا، کپڑے استری کرنا ،کھانا پکانا اور دوسرے امور کے لئے ضروری ہے کہ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی اپنی خدمات خود سر انجام دیں والدین کو چاہئے کہ بچوں اور بچیوں میں تفریق نہ کریں بلکہ دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے جب ہم بچوں کو ترجیح دیتے ہیں تو ان میں احساس برتری پیدا ہوتا ہے جس کے مقابلے میں بچیوں میں احساس کمتری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔بچوں میں صفائی کی عادات ڈالیں ناخن کاٹنے سے لے کر بدن کی صفائی ستھرائی گھر کے صاف رکھنے کی عادات کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے۔ماہرین نفسیات کے نزدیک والدین کے لئے ضروری ہے کہ والدین کو بچوں کیلئے رول ماڈل بننا چاہئے اس سلسلے میں بچوں سے تھوڑا فاصلہ بھی رکھنا چاہئے کیونکہ والدین والدین ہوتے ہیں اور بچے بچے ہوتے ہیں ان کے سامنے لڑنے جھگڑے سے گریز کرنا چاہئے۔ بچوں میں صحیح بولنے کی عادت ڈالنی چاہئے اگر والدین سچ بولیں گے تو بچے بھی سچ بولیں گے اگر والدین جھوٹ سے گریز کریں گے تو بچے بھی مزکورہ برائی سے بچ سکیں گے۔یہ امر مسلمہ ہے کہ سچ بولنا کسی بھی مذہب میں سرفہرست اخلاقی قدر ہے ۔ بچوں میں سچ بولنے کی عادت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔اسکے ساتھ ساتھ فضول خرچی اور بخل کی بجائے میانہ روی کی عادت ڈالنی چاہئے۔ بچوں کی تعمیر اخلاق کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اخلاق حسنہ پر بھر پور توجہ دینی چاہئے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button