کالم

پنجاب پولیس اور فوج

قارئین!بہاولنگر میں درندہ پنجاب پولیس کے تین تھانوں پردرندہ غدار فوج کے حملے کے بعد عوام کاجو ردعمل آیا ہے وہ انتہائی نیوٹرل اور حقائق پر مبنی ہے۔ جوالفاظ دونوں فورسز کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں،ان کی تفسیر یہ ہے کہ دو جرائم پیشہ ظالم غدارچور ڈاکو کنجر سور حرامی آپس میں لڑے۔ البتہ یہ تبصرے بھی جاری ہیں کہ فوج کے کسی بھی چپڑاسی / سپاہی رینک کے ہی غدار مجرم کرپٹ نوکر کو محض کوئی ایکسپوز کرے تو پوری فوج شریف انسان پر حملہ آور ہو جاتی ہے اور اسے اپنی غیرت کہتی ہے لیکن یہی غدار فوج پولیس کا آئی جی اغوا کرکے لے جاتی ہے پولیس کیافسران سے لے کر سپاہی تک جسے مرضی پھینٹا لگا دیتی ہے،لیکن کبھی بھی بے غیرت پلسیوں کی وہ غیرت فوج پر نہیں جاگی جو سچے ایماندار صحافیوں سیاست دانوں پر جاگی رہتی ہے جو ان کے جرائم بتانے کی طاقت ہمت جرات رکھتے ہیں جن میں سر فہرست میں ڈاکٹر میاں محمد اظہر امین گاڈازٹ ہوں اور میری جرات کے ثبوتوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں جس کے بعد مجھے آوٹ آف کنٹرول قرار دے کر آوٹ رکھنے کے لیے پولیس گردی کی انتہا آج تک جاری ہے جو دفاتر کے بعد گھر تک پہنچ چکی ہے۔ قارئین اس وقوعہ کے بعد یرغمال انڈر بلیک میلنگ آئی جی پنجاب کی اپنے محکمہ میں بھی ماں بہن پنی جارہی ہے لیکن یہاں میں ” پولیس پھینٹا عید التر شو” کے حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکے کردار پر تبصرہ اس لیے نہیں کروں گا کیونکہ ان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے اور آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں ڈاکٹر عثمان انور پر کسی بھی اشو میں بات نہیں کرتا جس کی وجہ وہ احسان ہے۔ میں خاندانی آدمی ہوں اور اگر کوئی میرے لیے معمولی سا بھی چلا ہو تو میں کبھی نہیں بھولتا اور غدار، بکاو اور سپاری اٹھانے والوں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔ ڈاکٹر عثمان آنور آئی جی پولیس پنجاب کیاس احسان کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جب غدار جرنیل اور ایجنسیاں میرے خلاف اس وجہ سے مسلسل خوفناک جرائم کررہی تھیں کہ میں 12 اکتوبر 1999 کی فوج عدلیہ مشترکہ غداری پر مسلسل نہ صرف لکھ رہا تھا بلکہ جرنیلوں اور غدار جسٹسوں پر مسلسل مقدمات درج کرا رہا تھا تو ان دنوں 2005 میں ایک درخواست میں نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس وقت کے ایس ایس پی آپریش آفتاب چیمہ کو دی وہ دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو انہوں نے میری درخواست پکڑ کر کہا کہ اتنی لمبی چوڑی درخواست میں کیا لکھا ہے تو میں نے کہا کہ اگر آپ کو اندر کرنے کا لکھا ہو تو کیا آپ مارک نہیں کریں گے تو انہوں نے اسی وقت اس وقت کے ایس پی سٹی ڈاکٹر عثمان انور (موجودہ آئی جی) کو مارک کی اور جب میں ڈاکٹر عثمان انور کے پاس پہنچا تو انہوں نے ساری درخواست پڑھ کر کہا کہ اظہر امین صاحب آپ نے صدر / آرمی چیف جنرل مشرف ، ایجنسیاں ، وزیراعلی پرویز الہی ، وزیراعظم چوہدری شجاعت ، وفاقی سیکرٹری انور محمود ، ڈی جی پی آر سمیت درجنوں پولیس افسران کو نامزد کیا ہے میں اتنا وزن یہ پرچہ دے کر کیسے اٹھا سکتا ہوں تو میں نے کہا کہ ان افراد کی وجہ سے میرے بھائی کی موت سے لے کر دیگر جعلسازیوں فراڈز اختیارات کا غلط استعمال ، دہشت گردیوں کے ناقابل ترید ثبوت کیا آپ کے سامنے نہیں ہیں تو پھر انہوں نے کہا کہ اچھا لفظ دیگر پولیس افسران میں کون کون شامل ہیں تو میں درجن کے قریب نام بتائے توانہوں نے کہا کہ ایس پی بلال صدیق کمیانہ اور ایس پی مرزا فرحان بیگ کے جرائم کے ثبوت دیکھائیں تو میں نے ناقابل تردید دستاویزی ثبوت دیے اور چیف جسٹس کا وہ حکم پڑھایا جس میں چیف جسٹس نے واضح لکھا تھا کہ ایس پی مرزا فرحان بیگ نے اختیارات کا غلط استعمال کرکے ایف آئی آر بحال کی جبکہ یہ کام بورڈ کا تھا جو دو طرفہ سن کر فیصلہ کرتا ہے کہ مقدمہ یا تفتیش یا دفعات بحال یا تبدیل کی جائیں یا نہیں۔۔ حکم میں چیف جسٹس نے یہ بھی لکھا کہ ایس پی نییہ جرم یکطرفہ اس وقت کیا جب صحافی ڈاکٹر اظہر امین پاکستانی صدر کے ساتھ امریکی صدر سے ملاقات کے دورے پر امریکہ تھے۔ قارئین! ان سارے جرائم کے ثبوت دیکھ کر اور خاص طور پر جب انہیں معلوم ہوا کہ میرے اکلوتے چھوٹے بھائی بنک آفیسر بھائی شہید صحافت ناظم امین کی موت مرزا فرحان بیگ کے ناجائز بلاوجہ تشدد کی وجہ سے ہوئی اور تشدد کی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے شہید بھائی کو پریشرآئز کررہا تھا کہ اپنے بھائی کو امریکہ سے بلا کر میرے حضور پیش کراو۔۔۔ اس تشدد سے شہید بھائی کا ذہنی تواز ن آوٹ ہوا اور اس کی موت کی وجہ بنا۔۔۔ یہ سب ثابت ہونے پر ڈاکٹر عثمان انور کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اسی وقت اے ایس پی طیب کو کہا کہ ایس ایچ او فیاض سے کہیں کہ کوئی ایک آدھ چھوٹی موٹی دفعہ لگا کر ایف آئی آر درج کر لے باقی وزن انویسٹی گیشن والے اٹھا کر قتل سمیت دیگر دفعات لگا دیں گے۔ ایف آئی آر درج ہوئی اور اگلے روز اس ایف آئی آر کا طوفان اخبارات میں مچ گیا اور کور کمانڈر لاہور ، سیکٹر ہیڈز پنجاب آئی ایس آئی ،ایم آئی نے پہلے فوری ایف آئی آر کی اخراج رپورٹ ایک اے ایس آئی کی گردن پر بندوق رکھ کر لکھوائی جسے میں نے فوری علاقہ جوڈیشل مجسٹریٹ منور حسین کے پاس جا کر رد کرایا اور انہوں نے حکم دے دیا کہ تمام ملزمان کا چالان عدالت پیش کیا جائے اور اس حکم کی آج تک تعمیل ایسے ہی نہیں ہوئی جیسے ڈیڑھ سال سے علاقہ جوڈیشل مجسٹریٹ عاطف رشید خان نیازی کے حکم کی توہین ہو رہی ہے اور کئی سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے واضح احکامات بشمول مقدمہ درج کرنے کا جسٹس عبدالسمیع کیحکم کی آج تک ہورہی ہے۔ اس کے بعد آج تک میرے محسن دوست آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورسمیت بھی دیگر جرائم پیشہ پولیس افسران کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کے حکم پر میرے ساتھ جرائم کرنے پر مجبور ہے اور آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ جوڈیشل مجسٹریٹ منور حسین ( موجودہ اے ایس جے) نے اپنے ایک حکم میں لکھا تھا کہ پولیس "مغل اعظم ” بن کر اظہر امین کے خلاف اختیارات کا غلط استعمال کررہی ہے۔ ان کے چالان طلب کے حکم کے بعد2005 میں جب میں تھانہ مزنگ گیا تو ایک سپاہی مجھے سائیڈ پر لے گیا اور مجھے کہا کہ کور کمانڈر لاہور ، سیکٹر ہیڈ آئی ایس آئی اور ایم آئی ذاتی طور پر ایس ایس پی آفتاب چیمہ ، ایس پی ڈاکٹر عثمان انور ، اے ایس پی طیب اور ایس ایچ او انسپکٹر فیاض کو اٹھا کر ان کے منہ پر کالے نقاب ڈال کر کہیں لے گئے ہیں۔۔۔ تین چار روز بعد میں دوبارہ تھانہ مزنگ گیا تو ایس ایچ او انسپکٹر فیاض ٹا نگیں سیدھی ٹیبل پر کرکے بمشکل بیٹھا تھا اور کراہتے ہوئے میرے ایک عزیز کے سامنے پہلا یہ فقرہ بولا کہ اگر میں اٹھ سکتا تو تمہیں ایسے ہی لمبا لٹا لیتا جیسے ہمیں راولپنڈی لے جاکر تشدد کیا گیا ہے اس نے کہا کہ جب ہم چاروں افسران کو راولپنڈی کسی نامعلوم دفتر میں ایک ڈان نما سادے کپڑوں میں بیٹھے شخص کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ ایس ایس پی آفتاب چیمہ اورایس پی ڈاکٹر عثمان انور آپس میں ٹکریں ماریں اور اے ایس پی طیب اور میں (انسپکٹر فیاض) آپس میں ٹکریں ماریں ایس ایچ او انسپکٹر فیاض نے مزید بتایا کہ اس کی تیسری ٹکر پر اے ایس پی بے ہوش ہو کر گرگیا کیونکہ وہ کمزور تھا اور انسپکٹر بہت تگڑا جوان تھا۔ اس کے بعد ان چاروں کو ننگا کرکے تیل والے ڈنڈے عضو مخصوص میں ڈالے گئے جس وجہ سے انسپکٹرفیاض اس وقت بھی تکلیف سے تڑپ رہا تھا
اور ٹانگیں سیدھی کرکے بمشکل بیٹھا تھا۔ قارئین اس وقوعہ کے بعد پولیس نے آئی ایس آئی کے ہر حکم پر ننگی اور کھلی دہشت گردی مجھ پر آج تک جاری رکھی ہوئی ہے ۔ میرا اس حوالے سے موقف ہے کہ پولیس افسران اس لیے اپنے جرائم کی معافی کے حقدار نہیں کیونکہ تم نوکری چھوڑدو لیکن کسی دباو کے تحت ظلم نہ کرو جرم نہ کرو،میرٹ کی خلاف ورزی نہ کرو اور اگر اپنی نوکریوں اور اچھی پوسٹنگز کے لیے ظلم بے انصافی کرتے ہو تو تم جہنمی تو ہو ہی لیکن تمہیں دنیا میں بھی عبرت کا نشان بننا چاہیے جس کی میں کوشش آخری سانس تک کرتا رہوں گا۔ پولیس اس حد تک دلا گیری پر اتری ہوئی ہے کہ جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ موجودہ ایس پی علامہ اقبال ٹاون اخلاق اللہ تارڑ ایک ایسی ایف آئی آر روک کر مجرم بن چکا ہے جس پر سیشن کورٹ کا کلیر حکم ہے کہ” ریکارڈ دی اسٹیٹ منٹ انڈر سیکش 154 سی آر پی سی”۔۔ اس سے بڑا تازہ ثبوت پولیس گردی کا کیا ہو سکتا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ سرکاری نوکر سر عام کہتے ہیں کہ عدالتیں ان کی جوتی پر،وہ اسٹیٹ ہیں۔۔۔ قارئین! بات چل رہی تھی غدار ڈاکو آرمی چیف حافظ جنرل عاصم منیرنقوی کے پولیس کو خطاب کی۔ اس خطاب میں اس غدار نے اپنے مستقل دھندے کا پھر استعمال کیا یعنی پولیس کو چوتیا بنانے کے لیے مزہب کا استعمال کیا۔ اس نے جو آیات پڑہیں وہ کہتی ہیں کہ اللہ اور نبی محمد کے احکامات کے خلاف چلنے والوں کے خلاف جنگ کرو یعنی اس نے اعلان کردیا کہ فوج ایسا کوئی قانون نہیں بننے یا چلنے دیتی جو اللہ اور نبی محمد نے بتایا لہذا اللہ اورنبی محمد کے خلاف فوج اور پولیس مسلسل مل کر جہاد کررہی ہے اور اللہ ،نبی ان کا آج تک کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ قارئین ! غدار آرمی چیف ٹھیک کہہ رہا ہے وہ ٹھیک اللہ اور نبی محمد کو للکار رہا ہے کہ جاو جو اکھاڑ سکتے ہو اکھاڑ لو، ہم تمہارے کسی حکم کی تعمیل نہیں ہونے دیں گے۔ چاہے وہ سود کا حکم ہو، رشوت کا ہو، بے ایمانی ، بے انصافی یا غداری نہ کرنے کا ہو ،چاہے چور کے ہاتھ کاٹنے کا ہو ، چاہے فوری انصاف اور کوڑوں کا ہو ، چاہے ایک انچ بھی زمین ناحق غصب کرنے کا ہو، چاہے نشہ حرام کا ہو ، چاہے "جھوٹ”، منافقت مکاری حسد سے متعلق ہو،چاہے دیگر اللہ اور محمد کے احامات ہوں۔ فوج / ریاست اور عدلیہ انہیں نہیں بننے اور چلنے دے گی بلکہ خود یہ جرائم گناہ جاری رکھے گی اور سب جانتے ہیں کہ یہ تمام جرائم فوج اورتمام سرکاری سور کررہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر مذاہب اصل اللہ کے لکھوائے ہوئے ہوتے تو ان پر کب کا عزاب آچکا ہوتا۔ قارئین! میں پچھلے چار سال میں متعدد بار نیب ، انٹی کرپشن ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تھانہ مزنگ اور تھانہ سمن آباد میں اصل ” توہین اللہ و نبی محمد ” کی متعدد مختلف جرائم پر مشتمل درخواستیں برائے اندراج ایف آئی آر داخل کرچکا ہوں لیکن کسی ایک پر بھی آض تک مقدمہ درج نہ کرکے ان اداروں نے نبیوں اور قرآن سے انکار کیا اور جب ان پر عزاب نہ آیا تو میں نے "گاڈازم” کتاب لکھ کر ثابت کیا کہ فوج پولیس عدلیہ اور ریاست درست کہتی ہے کہ تمام نبی فراڈیے تھے اور قرآن سمیت کوئی کتاب اللہ کی نہ ہے۔ یہ مقدمات درج نہ کرکے ان اداروں نے یہ بھی ثابت کیا کہ دفعہ 295 پی پی سی بھی فوج پولیس کا بلیک میلنگ ٹول ہے۔۔۔ اللہ نبی کی توہین کا دھندا بھی ان کا کاروبار ہے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button