کالم

شکر ہے کہ بچ گئے

وزیراعظم اور وزیر اعلی پنجاب نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عمرہ ادا کیا اور روضہ رسول پر حاضری دی اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنے خرچے پر کیا شکر ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لاکھوں روپے بچا لیے جبکہ قوم اس بات پر بھی اپنے حکمرانوں کی مشکور ہے کہ انہوں نے پورا جہاز بھر کرسرکاری خرچ پر عمرہ ادا نہیں کیا بلکہ اپنے فیملی ممبران پر مشتمل چند لوگوں کے ہمراہ در مصطفی پر حاضری دی حالانکہ جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو اس پوری حکومت ہی سرکاری خرچ پر سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلی گئی تھی جبکہ وزیر اعظم کا بار بار شکریہ ادا کرنے کو دل کرتا ہے کہ ملکی معاشی حالات بہتری کی طرف نک پڑے ہیں ورنہ تو انہوں نے اپنے کپڑے بھی نیلام کرکے بھوکی ننگی قوم پر وار دینے تھے شکر ہے کہ اسکی نوبت نہیں آئی اور تو اور عید میں ایک دن باقی ہے اور بازاروں میں رش بھی نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی جیبیں خالی ہیں سوچ رہا ہوں کہ کس کا شکریہ ادا کروں اتنا امن و سکون قائم کرنے پر خیر سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے شکر کے مقام ہے اور خاص کر سوشل میڈیا تو بھرا ہوا ہے پی ڈی ایم پارٹ1 اور پارٹ 2کاشکریہ ادا کرتے ہوئے چینی سستی ہو کر150کی ہوگئی ورنہ 80 کی چینی میں تو مٹھاس ہی نہیں تھی کھیر اچھی نہیں بنتی تھی جبکہ بجلی کا یونٹ بھی 70 روپے کا ہوا تو جان میں جان آئی ورنہ 14 روپے والی بجلی میں تو کرنٹ ہی نہیں تھا بلب بھی کم روشنی دیتا تھا اب تو دن میں بھی تارے نظر آتے ہیں شکر ہے پٹرول بھی سستا ہو کر290 کاہو گیا 130والے پیٹرول سے تو گاڑی مسنگ کرتی تھی اب تو فراٹے بھرتی ہے گھی بھی شکر کریں 600 کا ہو گیا ہانڈی اب سوادی لگتی ہے ورنہ 400 والے سے تو کھانے کا مزہ ہی نہیں آتا تھاآلو پیاز دھنیہ پودینہ ککڑی کدو بینگن ٹینڈے آٹا دال چاول وغیرہ وغیرہ سب 8 گنا زیادہ مہنگی تو ہو گئیں ہیں مگر شکر ہے اب ان میں وٹامن زیادہ ہیں کھانے کا لطف بھی آتا ہے اور عوام کی صحت بھی اچھی ہو گئی ہے پی ٹی آئی دور میں چند اینکر قسم کی خواتین اور مردوں کو لوگوں کی رائے لینے میں بڑی مشکل پیش آتی تھی لیکن شکر ہے اب انہیں بازار بھی نہیں جانا پڑتا بازاروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے تھے یہ لوگ اور تو اور شکر کریں شہباز شریف نے آ کر ملک بچا لیا خزانے میں 5 ارب ڈالر سعودیہ اور چین کے پڑے ہیں ورنہ عمران خان دور میں 23 ارب ڈالر پہ ملک دیوالیہ ہورہا تھا اسکے ساتھ ساتھ عمران خان نے 4 سال میں 12 ہزار ارب کا قرض چڑھا دیا تھا شکر کریں شہباز شریف نے 16 ماہ میں 25 ہزار ارب کا قرض لیکر ملک کو قرضہ کی دلدل سے بچا لیااور 12 فیصد مہنگائی پر پاکستان کی عوام کنگال ہو گئی تھی اب 45 فیصد مہنگائی کے بعد عوام کو مکمل سکون ملا اور طبیعت بھی صاف ہو گئی ہے جبکہ نئے پاکستان میں ملکی معیشت بھی 6 فیصد سے اوپر ترقی کرتے ہوے ڈوب چکی تھی اور پھر جیسے ہی بلاول بھٹو نے پرانے پاکستان میں داخلے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا تو شہباز شریف نے معاشی ترقی صفر سے بھی نیچے گرا کرملک کو ایشین ٹائیگر بنا دیا ن لیگ کے بڑے کہتے ہیں کہ ہم نے "سیاست گنوا کر ملک بچا لیا” اس پر بھی شکر ہے خاص طور پر ان محنتی ،جفا کش اور بہادر صحافیوں کی بھی جان چھوٹ گئی جنہیں مائیک گھسا کر ملکی معیشت اور مہنگائی پہ پروگرام نہیں کرنے پڑتے اور ہمیں اپنے عدالتی نظام کا بھی شکر گذار ہونا چاہیے جنہوں نے 45سال بعد بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا حالانکہ اسی عدالت کے حکم پر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر 35منٹ تک اسکی لاش کو رسے سے لٹکائے رکھاآج بھی ہمارے عدالتی اور پولیس کے نظام سے ہی ہماری جیلیں آباد ہیں اور ہماری جیل پولیس کا روزگار لگا ہوا ہے جہاں سے ہر ماہ لاکھوں روپے نظرانہ آنے سے ہماری معیشت کا پہیہ چل رہا ہے اگر ہمارا عدالتی نظام اور پولیس والے درست ہو جائیں تو جیل اہلکار بیکار بیٹھ کر مکھیاں مارنے کا مقابلہ کررہے ہوتے اور ہمارے دوکاندار گھروں سے ہی نہ نکلتے اسکے ساتھ ساتھ ہمیں شکر گذار ہونا چاہیے اپنے نظام تعلیم کا بھی جن کی دن رات کی کوششوں اور محنتوں کے بعد پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری حضرات خاکروب ،کلرکی اور پولیس کانسٹیبل کی نوکری کے لیے درخواستیں جمع کروارہے ہیں تاکہ پڑھے لکھے افراد طریقے اور سلیقے سے صفائی ،ستھرائی کا کام کرسکیں لیکن اعلی حکام انہیں بھرتی کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہم سے زیادہ پڑھے لکھے کہیں ہم سے زیادہ کام ہی نہ کرنا شروع کردیں خیر اس میں کسی کو کچھ کہنے کی بجائے اپنے تعلیمی نظام کے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جو تعلیم ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں وہ انہیں کیا بنا رہی ہے اگر آئین پاکستان کے حوالہ سے تعلیم کا ذکر کیا جائے تو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25ـA ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے "ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعے کیا جائے” لیکن سرکاری سکولوں نے بھی فیس رکھی ہوئی ہے اور کتابوں کا بوجھ اضافی ہے ہماری حکومتوں کی کمال مہربانی سے اب لوگوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ سرکاری سکول میں داخل کرواکر اپنے بچوں کی چند روپے فیس ہی ادا کرسکیں جبکہ اللہ تعالی کی رحمت والے گھرانوں کے بچے لاکھوں روپے فیس ادا کرکے پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں میںتعلیم حاصل کررہے ہیں جو پھر بیرون ملک بھی چلے جاتے ہیں پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میںپری اسکول (3 سے 5 سال کی عمر کے لیے) پرائمری ( ایک سے پانچ) مڈل (چھ سے آٹھ سال)سیکنڈری (سال نو اور دس سال) سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایس ایس سی، انٹرمیڈیٹ (گیارہ اور بارہ سال(ہائیر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایچ ایس ایس سی) اور یونیورسٹی کے پروگرام جو انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ ڈگریوں کی طرف لے جاتے ہیں پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی آبادی (22.8 ملین بچے) نائیجیریا کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوان 31 فیصد سے زیادہ بے روزگار ہیں خواتین کی مجموعی بے روزگار آبادی کا 51% حصہ ہے پاکستان 2021 تک ہر سال تقریباً 445,000 یونیورسٹی گریجویٹس اور 25,000 سے 30,000 کمپیوٹر سائنس گریجویٹس تیار کرتا رہاہے جنکی تعداد اب پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ان مشکل ترین حالات میں بندہ ملک میں تعلیم کی بہتری کے لیے کام کررہا ہو شکر ہے اسکی ہم دونوں ٹانگیں پکڑ کر اتنی زور سے کھینچتے ہیں کہ جس سے باقی لوگوں کو بھی سبق مل جائے نہیں یقین تو بہاولپور کے سابق وی سی ڈاکٹر اطہر محبوب کا حشر دیکھ لیں جو ہم نے کیا ہے جبکہ اسی شعبہ میں پاگلوں اور جنونیوں کی طرح کام کرنے والے ایک اور سچے اور کھرے پاکستانی محی الدین وانی بھی ہیں جو ابھی تک اپنے کام میں ڈٹے ہوئے ہیں دیکھتے ہیں وہ کب تک مافیا سے سرٹکرائیں گے خیر بات شکر ہی ہورہی تھی تو سب سے بڑھ کر شکر کا مقام یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کو اتنا باشعور ہونے ہی نہیں دیا کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہی آجائے لیکن یہ سمجھ انکو ضرور ہے جنہوں نے ملک وقوم کو اس حال تک پہنچا یا کہ اگر عوام کو عقل آگئی تو پھر شعبدہ باز قسم کے لوگ کہاں ہونگے اور ملک کہاں پر جائے گا۔ اس بات کا اندازہ شائد ابھی عوام میں سے کسی کو بھی نہیں لیکن پھر بھی شکر ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں چوریاں ،ڈکیتیاں اور لوٹ مار کا بازار ہی گرم ہے کوئی خانہ جنگی تونہیں ہورہی ناں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button