جیسے جیسے ماہِ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو ملک بھر کے بازار عید کی اشیاء کپڑوں، چوڑیوں، مہندی اور کھانے پینے کی چیزوں سے بھر جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں اس تہوار کا خاصہ ہیں ۔عید کی آمد کا اعلان صرف چاند رات کو رویت ِ ہلال کمیٹی پر موقوف نہیں بلکہ اس تہوار سے جڑی کئی ایسی روایات ہیں جو کئی ہفتے قبل سے یہ پتہ دینے لگتی ہیں کہ عید کی آمد آمد ہے۔ ان میں ایک خوبصورت روایت عید کے موقع پر عید کارڈ دینے کی بھی ہے۔ جو گزشتہ کئی برسوں سے ماند پڑتی جا رہی ہے بلکہ اب تو اس روایت کا دم لبوں پر ہے ۔غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی دولت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے۔ لیکن برِ صغیر پاک و ہندمیں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخر ی سالوں میں ہوا ۔شاید اس کے پیچھے دو وجوہات تھیں ایک تو ریلوے کا پھیلاؤ کیوں کہ جب ریلوے نظام شروع ہوا اوردن بدن پھیلتا گیا ۔ریلوے کی وجہ سے جہاں لوگ اپنے کاروبار اور روز گار کے سلسلے میں زیادہ دور جانے لگے تو وہاں ڈاک کا نظام بھی بہتر ہوا۔ اور پرنٹنگ کی نئی سہولیات کا متعارف ہونا تھا۔ہندوستان کی مخصوص تصاویر والے کارڈ بیسویں صدی کے اوائل میں پرنٹ ہونا شروع ہوئے جو لاہور میں حافظ قمرالدین اینڈ سنز ،حافظ غلام محمد اینڈ سنزاور محمد حسین اینڈ برادرز ،دہلی میں محبوب المطابع، بمبئی میں ایسٹرن کمرشل شبرٹی کارپوریشن اور بولٹن فائن آرٹ لیتھو گرافر وہ پہلی کمپنیاں تھیں جنہوں نے ہندوستان میں عید کارڈز کی چھپائی کے کاروبار میں قدم رکھا۔لیکن لندن کی کمپنی رافیل ٹک کے چھاپے گئے ہندوستانی مسلم طرز ِ تعمیر کی تصاویروالے پوسٹ کارڈ بھی استعمال کیئے جاتے تھے۔ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی یہ پریشانی شروع ہو جاتی تھی کہ کب کارڈ لینے جائیں گے اور کب بھیجیں گے ،اساتذۂ کرام، دوستوں ،چچا، چچی،خالہ ،خالواور کزنز وغیرہ کی فہرست بنتی تھی جنہیں بذریعہ ڈاک عید کارڈ بھیجنے ہوتے تھے ۔رمضان المبارک شروع ہوتے ہی رنگ برنگے عید کارڈزکی فروخت کیلئے مارکیٹوں میں خصوصی سٹالز سج جاتے تھے۔ جبکہ مہینے کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج پر پہنچ جاتی تھی ۔عید کارڈ کے سٹالوں پر پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرونِ ملک بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو عام ڈاک یا ایئر میل کے ذریعے عید کارڈز پورے اہتمام کے ساتھ بھجوایا کرتے تھے ۔عید کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھنا اور نقش و نگار بنانا بہت عجیب لگتا تھا ۔لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو عید کارڈ کے ساتھ چوڑیاں اور لڑکے اپنے دوستوں کو عید کارڈ کے ساتھ رومال کھڑی یا دیگرلوازمات دیاکرتے تھے۔ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کیلئے مسرت کا باعث ہوا کرتے تھے۔ انتہائی دلی جذبے کے اظہار کے ساتھ عید کارڈ کے ذریعے عید مبارک دی جاتی ۔عید کارڈ کا انتظار کیا جاتا تھا۔ گھروں میں ایک عرصے تک عید کارڈ بھیجنے والے کا ذکر رہتا تھا۔جو لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے وہ بھی عید کارڈ بھیجاکرتے تھے۔قلمی دوستی کا خوبصورت رشتہ قائم تھا۔قلم سے جو لفظ نکلتے تھے وہ دلوں کی الماریوںمیں ز ندہ رہتے تھے۔ جبکہ میسج چلتے پھرتے گردشی محبت ناموں کی ایک مصنوعی زبان ہے جو زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رہ سکتے ۔بڑی عمر کے لوگوں کے علاوہ بچے اس سرگرمی میں خاص طور پر دلچسپی لیتے تھے۔ مارکیٹ میں بچوں کی مناسبت سے چھوٹے اور بڑے سائز میںعید کارڈ دستیاب ہوتے تھے ۔ ویسے بھی عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوںسے جو خوشی بچوں کو ملتی ہے وہ عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا ۔ بچوں کے عید کارڈوں کی انفرادیت اس کے اندر لکھے گئے مضمون،کارٹون،باربی ڈول اور نقش سے بھی ظاہر ہوتی تھی جو صرف عید مبارک کے پیغام تک محدود نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ مختلف اشعار سے ان کی معصومیت اور شرارت ظاہر ہوتی تھی ۔پہلے اچھے عید کارڈ کے انتخاب میں بھی بہت وقت صرف کیا جاتا تھا اور مختلف سٹالوں میں گھوم پھر کر پسند کے کارڈ منتخب کیے جاتے تھے ۔عیدین کے دنوں میں محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا ۔بر وقت عید کارڈ کی ترسیل کیلئے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کیا جاتا کہ فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپردِ ڈاک کر دیئے جائیں اور محکمہ ڈاک ان عید کارڈوں کی ترسیل کیلئے خصوصی انتظامات کیاکرتا تھا۔جس بندے کے نام عید کارڈ ہوتاڈاکیا بھی بڑے اہتمام کے ساتھ عید کارڈ لے کر اسے ڈھونڈتا اور عید کارڈ دیتے ہوئے اسے عید مبارک کہتا ۔بندہ عید کارڈ وصول کر کے ڈاکیئے کو عیدی دیتا تو ڈاکیا خوشی سے شکریہ ادا کر کے اپنی راہ لیتا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے اور اب صورت حال بالکل بدل گئی ہے۔ بلکہ عید کارڈ بھیجنے کی خوبصورت روایت کا گزشتہ کئی سالوں سے دم لبوں پرہے۔اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ میں جائے اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں انقلابی ترقی کے بعد سماجی رابطوں کے روایتی طریقے تیزی سے معدوم ہورہے ہیں ۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط نے بھی اپنی افادیت کھو دی ہے تو عید کارڈز کیلئے کسی کے پاس کہاں وقت ہو گا۔
کاروباری نقطہ نظر سے بھی یہ ایک منافع بخش کام سمجھا جاتا تھا۔ایک جائزے کے مطابق ڈاک خانوں کے ذریعہ پیاروں کو عید کارڈ بھجوانے کا عروج 90ء کی دہائی تک رہا۔2000 ء کے آغاز میں اس قدیم تہذیبی روایت کو گرہن لگنا شروع ہوا۔اب ڈاکیو کی قدیمی عیدی مہم قصہ پارینہ بن گئی ہے۔جی پی او سمیت ملک بھر کے علاقائی ڈاکخانہ سے سالانہ بنیادوں پر قائم ہونے والے عید کارڈ خصوصی کاؤنٹربھی ختم ہو گئے ہیں۔اندرون و بیرون ملک پیاروں کو عید کی مبارکباد کے پیغام رسانی کا موثر و خوبصورت ذریعے عید کارڈ کی روایت دم توڑنے سے محکمہ ڈاک تقریباً سالانہ 60 کروڑ روپے کے ریونیو سے محروم ہو گیاہے۔گزشتہ دس سالوں سے عید کارڈوں کی ہر شہر میں انتہائی قلیل تعداد پوسٹ کئے جانے کی وجہ سے ایک صدی پرانے عید کارڈوں کی تقسیم کے ڈیٹ شیڈول کو پہلی بار محکمہ ڈاک کے سالانہ گزٹ سے ہی خارج کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
بلاشبہ عید کارڈ کا شمار اب سابقہ روایات میں شمار کیا جانے لگا ہے۔مگر عید پر مبارکباد دینے کا رواج اب بھی قائم ہے۔ لیکن اس کا ذریعہ تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ تو اب لوگوں کے پاس عید کارڈز کے اسٹالز پر جانے کا وقت ہے اور نہ ہی لوگ انہیں پوسٹ کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عید کے دن موبائل فون نیٹ ورکس پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ تاہم اس سے وابستہ افراد نت نئی جدت کے ساتھ اس روایت کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب سب لوگ عید کی مبارکبادیں ایس ایم ایس ، واٹس اپ، فیس بک، انسٹا گرام یا ای میل وغیرہ کے ذریعے بھیجتے ہیں ۔عیدکارڈ فروخت کرنیوالوں کے مطابق عید کارڈز کے خریدار زیادہ تر نوجوان تھے۔ لیکن اب موبائل فون، انٹرنیٹ ،ای میل اور فیس بک کے باعث عید کارڈ بھیجنے کا رجحان کم ہوگیا ہے۔اب موبائل فون کے ذریعے آسانی سے ایک ہی وقت میں اپنے تمام جاننے والوں کو عید مبارک کے پیغامات بھیجے جاسکتے ہیں۔بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے دوست، رشتہ دار سے فون پر براہ راست بات کر کے اسے اسی وقت مبارکباد دے دیتے ہیں اور آج کل اس پر زیادہ خرچ بھی نہیں آتا۔
بہر حال تمام اہلِ وطن کو آمدہ عید مبارک ۔
عید کارڈوں کی روایت کم ہونے کی وجہ صرف معاشی نہیں بلکہ انسان سے انسان کی محبت کمزور اور مشینوں سے مضبو ط ہوتی جا رہی ہے ۔ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے ،لکھنے ،بھیجنے اوروصول کرنے کا لطف لیا ہے وہ بے شک فون پر گھنٹوں باتیں کرتے رہیں لیکن چند بٹن دبانے یا کلکس میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے جومزہ اور جوش عید کارڈز میں ہوتا تھا۔ اب تو بعض بک سٹالوں یا ہاتھ رہڑیوں پر عید کارڈ زنمایاں جگہوں پر لگانے کے باوجود توجہ کا مرکز نہیں بن سکتے۔ مرد و خواتین دلچسپی لیئے بغیر گزر جاتے ہیں۔ اب توعید کارڈ تقسیم کرنے اور خوشی خوشی عیدی وصول کرنے والا ڈاکیہ بھی عید کارڈ دیکھنے کو ترستا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ہماری آنے والی نسلیں پوچھیں گی کی عید کارڈ کیا ہوتا ہے؟ ۔
0 48 6 minutes read