دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاستدان کے لیے جان نثار کرنے کا کا کوئی واقعہ اس طرح کا نہیں جیسا کے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے کارکنوں نے خود سوزی کی ۔ذوالفقار علی بھٹو دنیا کا پہلا سیاسی لیڈر تھا جس کی خاطر درجنوں کارکنوں نے خودسوزی کرلی ان کا تذکرہ ان کی قربانیوں کا ذکر کئے بغیر پیپلزپارٹی کی تاریخ نامکمل ہے۔ خود سوزی کرنے والوں میں چند نام عبدالرشید عاجز،اسلم لدھیانوی ،حنیف نارو، منور ، یعقوب مسیح -کیا پیپلز پارٹی کی تاریخ پھانسی کے پھندے کو چوم کر اپنے گلے میں ڈالنے والے لاہور کے محمد ادریس اور عثمان غنی بھکر کے رزاق جھرنا سندھ کے ایاز سموں بلوچستان کے حمید بلوچ کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے کبھی نہیں نہیں نہیں ۔ یہ لوگ کیوں بھٹو کے لیے خوشی خوشی موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوگئے۔ 22 سے زائد پارٹی کارکنوں نے خود سوزی کی۔ جن میں مسلمانوں کے علاوہ 3 کرسچن پارٹی کارکن بھی شامل تھے۔ ضیا الحق نےPPP کے سیاسی عمل کو روکنے کیلئے 80 ہزار سے زائد پارٹی کارکنوں کو کوڑے مار ے۔ 1لاکھ 20ہزار سے زائد کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سینکڑوں کارکن دوران احتجاج یا دوران قید قتل کر دئیے گئے-کیونکہ بھٹو ان بے آسرا ان بے کسوں سے عشق کرتا تھا- ان سے عشق کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چوم کر امر ہو گیا-بھٹو کے دل میں یہ بے کس لوگ جس کو بھٹو نے آواز ، پہچان اور حق دیا ڈھرکن کی طرح بستے تھے۔بھٹو عوام سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے -ذوالفقار علی بھٹو منوں مٹی تلیدفن ہونے کے باوجود ابھی تک کیوں زندہ ہے؟ آج بھی لوگ بھٹو کے حق اور مخالفت اس طرح ہی گرم گرم بحث کرتے ھیں جس طرح بھٹو کی ذندگی میں کرتے تھے۔کچھ لوگوں نے بھٹو کے بعد بھٹو کی حمایت کر کے عروج حاصل کیا ۔کچھ لوگوں نے بھٹو کے بعد بھٹو کی مخالفت کر کے نام کمایا۔اس کا مطلب ہے بھٹو آج پھی بہت لاکھوں لوگوں کے دل میں ڈھڑکن بن کر ڈھرکتا ہے بھٹو آج بھی زندہ ہے آج اس کی وجہ کیا ہے ۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ھے غریب سے عشق
ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشید بیگم غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی انہوں نے خود کہا تھا کہ میری ماں کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور ان کو دوسرے غریب لوگوں کی غربت بہت کھٹکتی تھی بھٹو کے والد سرشاہنواز بھٹو سندھ کے بڑے وڈیرے جاگیر دار تھے اور جونا گڑھ کے نواب کے وزیراعظم تھے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی غریب نوازی اور عوام دوستی اکتسابی نہیں جبلی تھی- انہیں غریبوں سے محبت اپنی غریب ماں سے مامتا میں ملی تھیجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غریبوں سے بھٹوکی محبت ایک سیاسی چال ہے انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھٹوکی ماں بہت غریب تھی 18 اکتوبر2007 کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سال کے بعد واپس آئیں تو کراچی میں ان کا استقبال کرنے کے لیے امڈ آنے والے انسانی سمندر میں ایک شخص ایسا بھی تھا، جو ننگے پاں چل رہا تھا- اس سے کسی نے پوچھا کہ تم جوتا کیوں نہیں پہنتے ہو۔ تو اس نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر دکھائی- یہ ایک عجیب و غریب تصویر تھی- ذوالفقار علی بھٹو ایک بچے کا ہاتھ تھامے ننگے پاں چل رہے تھے- بچہ بھی ننگے پاں تھا- شلوار قمیض میں ملبوس بھٹو صاحب کا گریبان کھلا ہوا تھا اور سر پر جناح کیپ تھی- اس شخص نے بتایا کہ یہ تصویر والا بچہ میں ہوں- میں غریب تھا، میرے والدین مجھے جوتا نہیں دلا سکتے تھے- ایک دن میں لاڑکانہ کی گلی میں ننگے پاں جا رہا تھا کہ بھٹو صاحب نے مجھے دیکھا- وہ گاڑی سے اترے، اپنا جوتا اتارا اور میری انگلی پکڑ کر بہت دور تک سخت دھوپ میں میرے ساتھ چلتے رہے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے-آج میں ان کی بیٹی کے استقبال کے لیے آیا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جوتے نہیں پہننے چاہیے – میں جب بھی ننگے پاں چلتا ہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہید بھٹو میرے ساتھ چل رہے ہیں- فیصل آباد کے رشید ننگ پیریا کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے ۔ جس نے بھٹو کے عشق میں 11 سال ننگے پاوں رہا۔ 1989 میں متحرمہ بینظیر بھٹو نے فیصل آباد سرکٹ ہاوس میں اس کو جوتی پہنائی -یہ صرف 2 واقعات ہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آخر تھے کون؟ وزیرِ اعلی محمد حنیف رامے کے دور میں منڈی یزمان کا ایک واقعہ بھٹو شہید پیپلز پارٹی بہاولپور کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے- پارٹی کارکنوں نے آپس کی بحث و تکرار کے دوران ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی- اِس مضحکہ خیز صورتِ حال میں وزیراعظم بھٹو کے نیول اتاشی جناب عبدالقادر حئی کے ہونٹوں پر ایک حقارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کا نوٹس صرف بھٹو صاحب نے لیا اجلاس ختم ہونے کے چند منٹ بعد قادر حئی صاحب حیران پریشان رامے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ میری توچھٹی ہو گئی ہے- یہ خبر ہم سب کے لیے انتہائی حیران کن تھی- اِس لیے کہ عبدالقادر حئی ایک بہت شائستہ بڑے مہذب اور ہردلعزیزنیول اتاشی تھے- وہ خود بھی حیران تھے کہ ان سے کیا جرم سرزد ہوا – رامے صاحب فورا بھٹو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے فقط چند لمحے بعد واپس لوٹ آئے اور بتایا کہ پارٹی کارکنوں کی باہمی بحث و تمحیص کے دوران جب نوبت تو تو میں میں پر آئی تو اس وقت آپ کے ہونٹوں پر ان کارکنوں کی تحقیر کا تاثر ابھرا اور ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودارہوئی بس یہی آپ کا جرم ہے -بھٹو صاحب کا کہنا یہ ہے کہ میرے سٹاف میں کوئی ایسا شخص نہیں ہونا چاہیے جو غریب ناخواندہ یا نیم خواندہ کارکنوں کو حقیر سمجھتا ہو- ہمیں یہ عزت اِن ہی غریبوں نے بخشی ہے۔ اِس لیے ہمیں ہرحال میں ان کا احسان مندرہنا چاہیے – بھٹو نے موت کو گلے لگا کرایک جوا کھیلا تھا۔ وہ جانتے تھے اگر میں جھک گیا تو تاریخ میں مر جاوں گا۔اگر میں نے جھکنے سے انکار کیا۔ فوج کیہاتھوں ماراگیا تو تاریخ میں ذندہ رہوں گا۔اور باذی جیت گے بالکل چلی کے صدر سلواڈور الاندے کی طرح ستمبر 1973 کو الاندے نے فوج کی بغاوت میں بھگانے کی بجائے فوج کا مقابلہ کیا اور موت قبول کی۔ الاندے جانتا تھا۔ کہ وہ ہنری کسنجر کے جال میں پھنس گیا۔جس کا مطلب موت ہے – اس نے موت کو قبول کیا اور ہمشہ کے لیے امر ہو گیا۔۔5 جولاہی 1977 کو بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو کہا گیا بھٹو بھی ہنری کسنجر کے جال میں پھنس گیا۔جس کامطلب موت ہے لیکن بھٹو نے بھی بھا گنے کی بجاہے موت کو ترجیح دی۔ الاندے کے دوست پابلو نرودا نے ایام اسیری میں ایک نظم لکھی۔جو بھٹو اور الاندے کے بارے میں ہے۔ اب مجھ پر کشف ہوا ہے کہ میں ایک نہ تھا بلکہ ایک میں کی تھا۔
اورمیں کی بار مر چکا ہوں۔ اور نہیں جاتا کہ میں نے کیسے دوبارہ جنم لیا سوائے اس ایک احساس کے یہ میں ہوں جو مر چکا ہے اور شہر ذندہ ہے!پاکستان پیپلز پارٹی میں جب تک بھٹو ذندہ رہے گا پیپلز پارٹی زندہ رہے گی جس دن پیپلز پارٹی بھٹو سے دور ہوگی ختم ہو جاہے گی لیکن بھٹو تاریخ میں پھر بھی زندہ رہے گاطالب علم بھٹو نے6 2ا پریل 1945 کو قاہد اعظم کو ا یک خط لکھا اس میں کہا میں ابھی سکول میں پڑھتا ہوں اس ییاپنے مقدس وطن کے قیا م میں عملی مدد نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ وقت آنے والا ہے جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔ بھٹو نے اپنا کہا کو 4 اپریل 1979 کو سچ کر کے امر ہوگے اپنی جان باکستان اور اس کے غریب اور استحصال زدہ عوام کے لیے قربان کر دی۔
0 47 5 minutes read