قارئین محترم! معمولی ،معمولی باتوں پر آگ بگولہ ہونا ،ایک دوسرے کو بغیر کسی وجہ کے تسلیم نہ کرنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنا انسان کی زندگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔اس کی وجہ سے انسان بالآخر غصیلا،چڑچڑا اور بد اخلاق ہو جاتا ہے۔معاشرے میں لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کا انجام بالآخر شدید تنہائی اورگہرے ڈپرشن کا باعث بن جاتا ہے۔مثال لیجئے کہ جب ہم پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں تو ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے فرنٹ سیٹ یا کوئی آرام دہ جگہ بیٹھنے کو ملے۔بعض لوگ گاڑی میں سفر نہیں کر سکتے کیوں کہ انہیں vomittingکی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ کسی شیشے والی سائیڈ پر بیٹھنا چاہیں تو کوئی بھی شخص عدم برداشت کی وجہ سے مریض انسان کو سیٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ بالکل یہی طرز عمل ہماری عام زندگی کا حصہ بن چکا ہے کہ ہم انا پرستی،غرور اور تکبر کی وجہ سے دوسروں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں،جس کے باعث معاشرے میں گھٹن،کھچ کھچائو اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اس وجہ سے لوگ آج کل اکثر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی چڑ چڑ اور بک بک سے بچنے کے لئے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے۔اس کیفیت سے متضاد کیفیت کا نام تحمل،برداشت اور برد باری ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ خاصیتیں پائی جاتی ہیں وہ عموما خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔اور دوسروں کے لئے نیک نیتی اور ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں،اس کے جواب میں انہیں خوشگوار ماحول میسر رہتا ہے۔قارئین! عدم برداشت اور بات بات پر آگ بگولہ ہونا پہلے صرف گھروں تک محدود تھا لیکن اب اللہ کے فضل سے ہمارے ایونوں میں بھی اس کی واضح مثالیں نظر آتی ہیں۔گھروں میں معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے خفا رہنا اور عرصے تک ناراضگی ہمارا کلچر بن چکا ہے۔خاندانی تنازعے ذرا سی رنجش سے جنم لیتے ہیں اور سالوں تک سگے بھائی بہن ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔اور یوں یہ خواہ مخواہ کی ناراضگی سالوں تک چلتی رہتی ہے۔ہمارے سیاسی کلچر میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب سیاستدانوں کے کارکنان سیاسی جھگڑے گھروں تک لے پہنچے ہیں اور خوشحال معاشرتی زندگی سیاسی تلخیوں اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے عذاب بن چکی ہے۔ ویسے تو ایوانوں کے اندر ہمارے منتخب شدہ نمائندے جو قانون سازی کا حق رکھتے ہیں اکثر اس طرح کی گفتگو فرماتے ہیں کہ مجبورا سپیکر صاحب کو ان کا مائیک آف کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے باقا عدہ تیاری کر کہ آتے ہیں کہ انہوں نے ہونے والے اجلاس میں مخالفین کو کن کن القابات اور مخصوص ,,جملوں،، سے نوازنا ہے ،تا کہ اس بے حیائی کے کلچر میں ان کی واہ واہ ہو۔یہی حال ہمارے ٹریفک کے معاملات کا ہے،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کئی گھنٹے ہم ضائع کر دیتے ہیں لیکن یہ گوارا نہیں کرتے کہ اگر ہمارے پاس گنجائش ہے تو ہم ایک گھنٹہ ضائع کرنے کے بجائے ایک یا دو منٹ میں اپنی گاڑی آگے،پیچھے یا سائیڈ پر کر کہ بند ٹریفک کو کھولنے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔لیکن اگر ہم نے ایسا کیا تو کون بے وقوف ہمیں پھنے خان کہے گا بالکہ الٹا ہمیں بزدل کا طعنہ دے کر چلا جائے گا۔ یہی سوچ عدم برداشت اور دوسرے کی دل آزاری کا باعث ہی نہیں بنتی با لکہ ہم خود بھی اس عمل سے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور ڈپریشن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہم پر حملہ کرے۔ایک لطیفہ ہے یا حقیقت ہے کہ پاکستان میں دو گاڑیوں کی وجہ سے بھی ٹریفک جام ہو جاتی ہے،وہ اس طرح کہ اگر کسی تنگ جگہ پر دو گاڑیاں آمنے سامنے آ جائیں تو دونوں صاحبان ماشاء اللہ اپنی گڈی اونچی رکھنے کے لئے reverseنہیں کرتے بالکہ ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ آپ گاڑی پیچھے کریں اور دوسرا پہلے کو کہے گا ،نتیجہ یہ نکلے گا کہ گاڑیوں کی ایک لمبی لائن لگ جائے گی اور دو آدمیوں کی انا اور ضد کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک بند رہے گی۔ یہی معاملہ کسی تنگ جگہ پر گاڑی یا موٹر بائیک ڈالنے کا ہو تو دونوں فریقین با لکہ جتنے بھی فریقین وہاں موجود ہوں گے ان کی کوشش ہو گی کہ تنگ جگہ میں وہ وسبقت لے کر گاڑی یا بائیک پہلے ڈالیں۔آج کل سوشل میڈیا نے عدم برداشت کے کلچر کو مزید فروغ دیا ہے۔ آپ فیس بک،ویٹس ایپ یا ٹویٹر پر سیاسی پوسٹس تو پڑھ ہی نہیں سکتے کیونکہ مخالفین نے ایک دوسرے کی شان میں ایسے ایسے ارشادات فرمائے ہوتے ہیں کہ انہیں آپ فیملی یا بچوں کے سامنے نہیں کھول سکتے۔ ایک بندے نے جب دوسرے کے سیاسی رہنماء کو برا بھلا کہا ہو گا تو ظاہر ہے کہ اس کے رد عمل میں دوسرا پہلے کے لیڈر کو برا بھلا کہے گا،لیکن ان غیر منطقی باتوں سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی نے اپنی ہار تسلیم کرنی ہے۔ سوشل میڈیا میں ہر کوئی آئن سٹائن بنا ہوتا ہے۔کیونکہ اس سے بڑا وہاں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔خاص کر عدم برداشت کا کلچر ایوانوں سے عا م آدمی تک منتقل ہوا ہے۔ یہ لوگ کیا قانون سازی کریں گے جو اسمبلیوں کے اندر گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔اسمبلی کے اندر تو یوں لگتا ہے کہ ممبرز نے وطن کی حفاظت کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ایک دوسرے کو گالم گلوچ،برا بھلا کہنا اور تنقید برائے تنقید ان لیڈروں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ایک دوسرے کو سلام کرنا تو دور کی بات ہے (یہ محترمہ بے نظیربھٹو)کے دور میں ہوا کرتا تھا،راہ و رسم بنا حرام مطلق بالکہ یہ مبر قانون ساز اسمبلی ایک دوسرے کی شکل تک اسمبلی میں دیکھنے کے روا دار نہیں۔اب تو بات یہاں تک پہنچ ہے کہ تنقید کرنے والے کا تعاقب کیا جاتا ہے اوراس پر حملے تک کروائے جاتے ہیں۔ جب جس ملک کے قانون بنانے والے اس طرح عدم برداشت کا مظاہرہ کریں گے تو وہاں عام آدمی کیا Learnکر رہا ہوتا ہے۔اس کے لئے کسی دوسرے کی عزت اچھالنا تو باعث فخر ہے،کیونکہ وہ اپنے قائدین کو Followکر رہا ہوتا ہے۔اس طرح یہ سب کچھ معاشرے کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور یوں نوجوانوں میں یہی غیرتحمل مزاجی اور عدم برداشت پنپ رہی ہے۔اس سے معاشرے میں بے راہ روی کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔اور لوگ چڑ چڑے پن اور hypertentionکا شکار ہو رہے ہیں۔معاشرے میں امن و امان اور رواداری،تحمل،برد باری کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔ کبھی ایک شخص اگر غصے میں ہے تو دوسرا صبر کا مظاہرہ کرے اور اگر دوسرا غصے میں ہے توپہلے والا تحمل دکھائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے سیاستدانوں کوw Follo کرنے کہ اساتذہ،طلباء اور عام آدمی کو آگے بڑھ کر تحمل و برباری کا عملی نمونہ پیش کر کہ وطن عزیز کو امن کو گہوارا بنانا ہو گا۔کیونکہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ علم و اخلاق میں ہم بر تری حاصل کریں،کیونکہ یہ اللہ کا بے لاگ اصول ہے کہ جس قوم نے علم اور اخلاق کے میدان میں ترقی کی وہی اس دنیا کا سربراہ بنایا گیا۔ آپ ذرا آج اپنی حالت پر غور کریں کہ عدم برداشت اور چڑ چڑے پن کی وجہ سے ہماری حالت علم اور اخلاق کے معاملے میں کیا ہے، اور مغربی ممالک کس درجے پر متمکن ہیں۔اب وقت اس بات کا تقاضہ کر رہا ہے کہ ہم سیاسی لیڈروں کی بے راہ روی سے ہٹ کر خود اپنے علم و عقل کے ذریعے سے فیصلہ ہائے جات کرنے کے قابل ہوں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ انشاء اللہ اس طرح سے انقلاب خود بخود رونما ہو گا اور اگر انقلاب نہ بھی آیا تو ہمارے اخلاق اور کردار باقی دنیا کے لئے مشعل راہ بن جائیں گے۔ انشاء اللہ۔
0 39 5 minutes read