امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو خط لکھا ہے جس میں انھوں نے نومنتخب حکومت سے ایک جانب نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے خط میں لکھا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ وزارتِ اعظمیٰ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے مبارکباد کا خط موصول ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں امریکی صدر نے مزید لکھا ہے کہ دنیا اور خطے کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ، پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ امریکی صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ صحت عامہ کے تحفظ، معاشی ترقی اور سب کے لیے تعلیم پر پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ وژن ہے جسے دونوں ممالک مل کر فروغ دیتے رہیں گے۔ امریکی صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ امریکی 2022 کے سیلاب کی تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھے گا اور وہ پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پُرعزم ہیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے نشیب وفراز کا شکار رہے ہیں کبھی بڑے اچھے تعلقات بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس میں شکایات بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دونوں کے تعلقات کی ایک روشن تاریخ ہے سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر جب سوویت یونین نے افغانستان میں چڑھائی کی تو امریکہ اور پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکا گیا۔سوویت یونین جب افغانستان سے رخصت ہوا تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود تعلقات میں سرد مہری آ گئی جو 1999ئمیں مشرف حکومت کے قیام میں آنے تک قائم رہی۔ پھر 2001ئمیں نائن الیون ہوا تو افغانستان میں جنگ کے لیے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے ہر لحاظ سے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کا اربوں ڈالرز کا نہ صرف نقصان ہوا بلکہ ہزاروں جانیں بھی قربان کیں۔ اس جنگ کے دوران بھی امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، صرف جنرل مشرف کے دور میں امریکہ نے پاکستان کو مختلف مد میں تقریباً 19ارب ڈالرز کی امداد دی۔ پھر اس کے بعد کیری لوگر بل کے تحت 2010ء سے لے کر 2015ئپاکستان کو سات ارب ڈالرز کی امداد دی گئی اور اس کے بعد بھی پاکستان میں مختلف ایسے منصوبے ہیں جو امریکی تعاون سے پروان چڑھ رہے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان امریکہ تعلقات کو بیوروکریسی کی حد تک رکھا ہوا تھا۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد بائیڈن نے نہ تو سابق وزیراعظم عمران خان کو فون کیا اور نہ ہی ان کے جانشین شہباز شریف یا نگران حکومت سے رابطہ رکھا یہ پہلا موقع ہے کہ صدر بائیڈن نے طویل خاموشی کے بعد وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو خط لکھا ہے محسوس یہ ہو رہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی سرد مہری پاکستان کے لیے ایک واضح اشارہ دیے رہی ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کم سے کم تر ہو رہے ہیں جو تاثر اب کم ہوا ہے امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی نہیں رہا اہم ترین سٹریجکٹ مقام اور ایٹمی طاقت ہونے کے باعث امریکہ پاکستان کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا گو کہ در پردہ امریکہ کو پاکستان کے چین اور روس سے تعلقات پر ہمیشہ تشویش رہی ہے لیکن کبھی کھلے عام اس کا امریکا نے اظہار نہیں کیا لیکن ایران سے تجارتی تعلق پر امریکہ نے کھل کر ردعمل دیا ہے،امریکہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ اب بھی جنوبی ایشیا میں ایک بڑا کھلاڑی ہے جو انڈیا پاکستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ افغانستان القاعدہ اور دولت اسلامیہ(داعش) جیسے بین الاقوامی دھشت گردوں کا مرکز نہ بنے۔اور ساتھ ہی ساتھ وہ پاک ایران بڑھتے پاکستانی تجارتی تعلقات پر گہری نظر بھی رکھے ہوئے ہے لگ یہ رہا ہے کہ مستقبل میں پاکستان امریکہ تعلقات تین اہم شعبوں، امریکہ چین کشمکش، پاک انڈیا تعلقات اور افغانستان کے گرد گھومیں گے۔ مختلف سٹریٹیجک نقطہ نظر کے باوجود، امن اور عالمی دہشت گرد گروہوں کو روکنے میں دونوں کی مشترکہ دلچسپی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کا پاکستانی اھداف پر مسلسل حملے اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی کمین گاہوں پر امریکہ کو شدید تشویش ہے کہ یہ گروپ افغانستان میں نیٹو کی طویل جنگی آپریشنز کے باوجود ابھی بھی دھشت گردی سے باز نہیں ارہے اس مقصد کے لیے دونوں مسلسل دہشت گردی کے خلاف تعاون کے مختلف پہلوؤں میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔امریکہ گو کہ پاک چین تعلقات ختم کرنی کی بات نہیں کرتا لیکن خطئہ میں چین کے ساتھ دفاعی تعاون پر تشویش کا شکار ضرور ہے۔ امریکہ کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امریکی امداد کی عدم موجودگی میں، پاکستان چین کی طرف بڑھتا رہے گا۔پاک بھارت دشمنی امریکہ کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرحدی اور فوجی تنازعات کے واقعات میں ثالث کے طور پر اپنا کردار جاری رکھے تاکہ ممکنہ بحران کو مکمل طور پر پھیلنے والے تنازعے میں بدلنے سے روکا جا سکے۔پاکستان کے اہم محل وقوع اور حیثیت کی وجہ سے امریکہ کے لیے پاکستان کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اور عالمی تناظر میں اپنی سپر پاور کی حیثیت کم ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان کے لیے اہم مالی اور سکیورٹی امداد جاری رکھنے کی سکت رکھتا ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی سٹریٹیجک پارٹنر شپ جاری رکھیں گے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ صرف بیس سالوں کے دوران امریکہ نے پاکستان کے عوام کو براہ راست بتیس ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے۔ لیکن اصل میں پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری اس سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ٠٦٩١ئ کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان میں”سبز انقلاب”کی حمایت کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجہ میں گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی زیادہ پیداوار والی اقسام پیدا ہوئیں اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کے معاشی مواقع میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا تھا امریکہ نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ قبل پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے آبی ذخائر اور پن بجلی گھر تعمیر کیے تھے جو آج بھی قابل اعتماد، مؤثر اور صاف توانائی فراہم کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کی بجلی کی پیداواری استعداد کار میں بڑے پیمانہ پر اضافہ کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں اور آج بھی پاکستان میں پانچ کروڑسے زیادہ لوگوں کے گھروں کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ مذکورہ آبی ذخائر پانی کی تباہ کُن قلت کی روک تھام، سیلاب کے اثرات کو کم کرنے اور زرعی پیداوار کو بڑھانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ صرف منگلا اور تربیلا ڈیم ہی پاکستان سے گزرنے والے پانی کا تقریبادس فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
0 55 5 minutes read