کالم

فطرانہ۔۔فضائل ۔۔اہمیت

قارئین محترم! اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے،جس میں ہر فرد کے لئے سہولیات پر مبنی زندگی گزارنے کے اصولوں پر بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد ہر صاحب استطاعت پر صدقہ ء فطر واجب کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں دیگر فلسفہء حیات بھی موجود ہیں لیکن اصل میں یہ صدقہ ان مسلمان بھائیوں کی مدد کے طور پر اسلام نے صاحب ثروت لوگوں پر واجب قرار دیا ہے،جو اس قابل نہیں کہ وہ عید کی خوشیوں میں کما حقہ شامل ہو سکیں جس طرح مسلمانوں کی اکثریت جنہیں خدا نے مال و دولت سے نوازا ہے۔اس خوشی کے تہوار میں اگر کوئی مسلمان بھائی جو اس قابل نہیں کہ وہ شامل ہو سکے تو اسلام نے صدقہء فطر کی صورت میں اپنے سفید پوش اور نادار بھائیوں کے لئے دیگر مسلمانوں پر اس صدقہ کو واجب کیا ہے۔
قارئین! صدقہ فطر مختلف اجناس پر معاشرے میں رہنے والے افراد کو بہر صورت ادا کرنا ہو گا ،کیونکہ اس کا بنیادی فلسفہ ان غربائ،مساکین اور فقراء کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا مقصود ہوتا ہے جو کہ عام حالات میں عید کی خوشیوں میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہوتے۔اسلام چونکہ مساوات کا درس دیتا ہے اس لئے صدقہ فطر سے غرباء اور مساکین بھی عام آدمی کی طرح رمضان کے مہینے کے بعد عید کی خوشیاں بنانے کے مساوی کے حقدار ہیں۔ صدقہ فطر ادا کرنے کے بے شمار فضائل متواتر حدیثوں سے ثابت ہیں۔لہذا ہر آدمی کو اپنی حیثیت کے مطابق فطرانے کی رقم حقداروں تک پہنچانی چاہئے۔
قارئین!اللہ پاک کی عنایت سے مسلمان سال میں رمضان المبارک کے ماہ میں نیکیوں کا سیزن بھرپور انداز میں لگاتے ہیں۔ گناہوں سے خود کی تطہیر کرتے ہیں۔ اور اللہ کے احکام احسن طریقے سے پورے کرتے ہیں۔روزے مکمل کرنے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کی خوشی کا تہوار عید الفطر مقرر کیا ہے۔ اصل میں فطر فطرانے سے ماخوز ہے۔ فطرانے کا مقصد رمضان کے روزوں میں جو کمی بیشی یا خطاء سرزد ہو گئی ہو اس کی تلافی ہے۔فطرانے کی رقم کا تعین مختلف انداز سے کیا جا سکتا ہے۔ مخیر حضرات ٢ کلو کشمش کی قیمت بطور فطرانہ دے سکتے ہیں۔عام آدمی کے لئے ڈھائی کلو آٹے کی قیمت ادا کرنا واجب ہے۔ کھجور کی قیمت بھی بطور فطرانہ اد اکی جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں فطرانہ ہر مرد و زن اور بچے پر واجب ہے۔ اگر رات کو بچے نے جنم لیا تو عید کی صبح اس کا فطرانہ ادا کرنا بھی مسلمانوں پر واجب ہے۔ فطرانے کا ایک مقصد تو واضح ہے کے رمضان میں جو روزوں کے اندر کوتاہی دانستہ یا نا دانستہ ہو گئی یہ اس کی تلافی ہے۔ لیکن اسلام چونکہ مکمل کوڈ آف لائف ہے اس لئے ا س کا ایک اور عظیم مقصد یہ بھی ہے کہ جو مفلس عید کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتے انہیں اس رقم سے باقی مسلمانوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شمولیت کا موقع مل جاتا ہے۔ اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ نماز عید سے قبل فطرانہ ادا کرنا واجب ہے۔ لیکن بہترین یہ ہے کہ آپ جتنا جلد فطرانے کی رقم ادا کر سکیں کر دیں تا کہ وہ لوگ جو عید کی خوشیوں میں پیسے کی کمی کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتے وہ پہلے سے کچھ خریداری کر لیں تا کہ وہ احساس محرومی سے بچ پائیں۔اگر آپ کا کوئی عزیز یا رشتہ دار مفلس ہے تو آپ کے فطرانے کی رقم کا سب سے زیادہ حق اس پر ہے۔ بہرحال آپ کسی بھی غریب اور مستحق شخص کو یہ رقم ادا کر سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اس رقم کو تقسیم کر کہ مختلف مستحقین میں بانٹ دیا جائے۔یاد رہے ریا کاری اسلام میں ایک بہت بڑا جرم ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ اس طرح صدقات اور غرباء کی مدد کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہونے پائے۔ اس میں بھی اسلام کا عظیم فلسفہ پوشیدہ ہے۔ آپ کا سفید پوش بھائی جو لوگوں کے سامنے کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتا اور خودی اس کے آڑے آتی ہے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ چپکے سے اس کو فطرانے کی رقم ادا کر دی جائے تا کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے۔آج کے دور میں علماء نے فطرانے کی کم از کم مقدار 300 روپے مقرر کی ہے۔ بہرحال اگر کوئی صاحب استطاعت ہے تو وہ زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ بہرحال 300روپے فی کس فی گھرانہ واجب ہے۔ تقویٰ کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ 300 اور 400روپے فی کس کے طور پر ادا کر دیں۔کیونکہ اشیاء خورد و نوش کی قیمت بڑھتی رہتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ فطرانے کی رقم میں کسی اچھے مفتی یا عالم سے مشورہ کر کہ اسے حقداروں میں تقسیم کر دیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے روزوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اسلامی تقاضوں کے مطابق صدقہ فطر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری معمولی سی غلطی ہمارے سارے اعمال کو ضائع نہ کر دے۔یاد رہے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا نماز عید ادا کرنے سے قبل اہتمام کرنا اشد ضروری ہے۔ لھذا اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ ورنہ اللہ پاک کی ناراضگی اس کا سبب بن سکتی ہے۔
قارئین! فطرانے کی مکمل تفصیل جو آپ مختلف اجناس پر ادا کر سکتے ہیں وہ کچھ یوں ہے ،لیکن بحرحال کم از کم مقدار 300روپے جو کہ گندم کے سوا دو کلو یا ڈھائی کلو کی قیمت کے مقدار کے برابر ہے وہ ادا کرنا ہر روزہ دار پر واجب ہے۔ڈھائی کلو گندم پر صدقہ فطر کی قیمت کم از کم 250روپے بنتی ھے لیکن احتیاطا 300روپے فی کس ادا کرنا ہو گی۔جو کی ساڑھے تین کلو قیمت پر فطرانہ کی مقدار 450روپے بنتی ہے۔کھجور ساڑھے تین کلو پر اس کی قیمت کے متوازی فطرانہ 2100روپے ادا کرنا ہو گا۔کشمش ساڑھے تین کلو پر فطرانہ 2800روپے بنتا ہے۔ بحرحال ہر شخص کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق مندرجہ بالا فطرانے کی قیمت عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ضروری ہے۔فطرانہ کے صدقہ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہمارے قرب و جوار میں جو لوگ غریب ہیں وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہء حیات ہے ،اس لئے اس میں فطرانے کی قیمت کا تعین سوسائٹی میں رہنے والے مختلف حیثیت کے افراد کے مطابق مختلف رکھی گئی ہے۔اگر یہ کسی ایک ہی جنس پر یا fixمقدار میں رکھ دی جاتی تو صاحب استطاعت زیادہ ثواب سے محروم رہ جاتے اور مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کے لوگ شائد یہ ادا ہی نہ کر پاتے۔ اس لئے ہر شخص کی حیثیت کے مطابق فطرانے کی ادائیگی کا معیار بنا کر اسلام نے ایک بڑی پیچیدگی دور کر دی۔یاد رہے اگر خدا نخواستہ کسی مرض یا سفر یا ضعف کی وجہ سے کوئی روزہ نہ رکھ سکے تو وہ شخص فی روزہ یہی قیمت فدیہ کے طور پر ادا کرنے کا پابند ہے۔یاد رہے کہ صدقہ فطر کا زکوٰت کے واجب ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔جو شخص اتنا مال رکھتا ہے کہ قرض اور ضروری اشیائے خور د و نوش کے علاوہ اس کے پاس کچھ بچ جاتا ہے تو اس پر فطرانے کا نصاب لاگو ہو جاتا ہے،جس طرح مرد حضرات پر صدقہ فطر لاگو ہوتا ہے بالکل انہی شرائط کے تحت عورت بھی اگر اہل ہے تو وہ بھی صدقہ فطر ادا کرنے کی پابند ہو گی۔ اگرچہ فقہاء کے نزدیک عید والی صبح فجر کے وقت صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے رمضان کے کسی بھی حصے میں یعنی اوائل رمضان میں ادا کر دینا افضل ہے۔کیونکہ بنیادی طور پر اس صدقے کا تعلق ان فقراء اور مساکین کی مدد کرنا مقصود ہے جو عید کی خوشیاں بنانے کے اہل نہیں ہوتے ۔اسی لئے صدقہ فطر رمضان کے مہینے میں کم از کم چار یا پانچ دن ادا کر دینا چاہئے تا کہ وہ لوگ بھی ان پیسوں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکیں
،اور باقی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button