ملک میں جس طرح ہاکی ،فٹ بال ،سکوائش ،بیڈ منٹن سمیت باقی کھیلوں کا خاتمہ ہواویسے ہی ہماری پہلوانی بھی دم توڑتی جا رہی ہے اور اسکی جگہ بدمعاشی والی پہلوانی لے رہی ہے جو اسلحہ کے زور پر شروع ہوتی ہے اور موت کے منہ میں جاکر ختم ہوجاتی ہے اس بدمعاشی والی پہلوانی نے نہ صرف خاندانی دشمنیوں کو جنم دیا بلکہ کئی گھروں کے چشم و چراغ بھی گل کردیے ابھی کچھ عرصہ پہلے امیر بالاج ٹیپو کا قتل اسی سلسلہ کا تسلسل ہے یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم نے اپنی کھیلوں میں بھی سیاست کو گھسیڑ دیا ہے سیاست تو ہماری برباد تھی ہی ساتھ میں ہم نے اپنی کھیلوں کو بھی تباہ کردیاکھیل اور کھلاڑی کا جو رشتہ تھا اس میں ہم نے اناڑی قسم کے لوگوں کو عہدے دیکر اپنی کھیلوں کو ختم کردیا جسکا نتیجہ آج ہم منشیات کی صورت میں بھگت رہے ہیں جب ہماری کھیلیں سیاست دانوں سے دور اور سیاست سے پاک ہوتی تھیں اس وقت کے ہمارے بنے ہوئے ریکارڈ آج بھی دنیا میں ناقابل تسخیر ہیں ایک وقت تھا کہ ہم ہاکی کی دنیا پر چھائے ہوئے تھے جبکہ ہاکی ورلڈ کپ کا تصور سب سے پہلے پاکستان کے ایئر مارشل نور خان نے دیا تھا انہوں نے ورلڈ ہاکی میگزین کے پہلے ایڈیٹر پیٹرک رولی کے ذریعے ایف آئی ایچ کو اپنی تجویز پیش کی جسے 26 اکتوبر 1969 کو منظور کرلیا گیا اور پھر 12 اپریل 1970 کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں ایف آئی ایچ کونسل نے ہاکی ورلڈ کپ کاپہلا افتتاحی ورلڈ کپ اکتوبر 1971 میں پاکستان میں منعقد کروانے کا اعلان کیا لیکن بدقسمتی سے اسی دوران پاکستان کا ایک بازو کٹ کر بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہوگیا سیاسی حالات خراب ہونے پر ہاکی کا پہلا ورلڈ کپ پاکستان سے بارسلونا اسپین کے ریئل کلب ڈی پولو گراؤنڈز میں منتقل کردیا گیا یہ ٹورنامنٹ جو 1971 میں شروع ہوا تھا ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے جس میں سمر اولمپکس کے درمیان چار سال کا وقفہ ہوتا ہے ہاکی کے یہ ورلڈ کپ کے مقابلے پاکستان نے چار بار جیت کر ورلڈ چیمپئن کا تاج اپنے سر پہ سجایا جبکہ نیدرلینڈ، آسٹریلیا اور جرمنی نے تین تین ٹائٹل جیتے ہیں بیلجیئم اور بھارت دونوں نے ایک بار ٹورنامنٹ جیتا ہے 2023 کا ٹورنامنٹ بھونیشوربھارت میں 13 سے 29 جنوری تک کھیلا گیا تھا جو جرمنی نے بیلجیئم کو پنالٹی شوٹ آؤٹ میں 5ـ4 سے شکست دے کر اپنا تیسرا ورلڈ کپ ٹائٹل جیتا مزے کی بات یہ ہے کہ ہاکی ورلڈ کپ کی ٹرافی بھی پاکستانی بشیراحمد نے ڈیزائن کی تھی جسے پاکستانی فوج نے بنایا تھا جسے27 مارچ 1971 کو، برسلز میں ٹرافی باضابطہ طور پر FIH کے صدر Rene Frank کو بلجیم میں پاکستانی سفیر مسٹر H.E مسعود نے پیش کیا تھا یہ ٹرافی چاندی کے ایک کپ پر مشتمل ہے جس میں ایک پیچیدہ پھولوں کا ڈیزائن ہے جسے چاندی اور سونے میں دنیا کے ایک گلوب نے گھیر رکھا ہے جسے ہاتھی دانت سے جڑی ہوئی ایک اونچی بلیڈ کی بنیاد پر رکھا گیا ہے جسکے اوپرایک ماڈل ہاکی اسٹک اور گیند ہے ہمارا ہاکی کا بنا ہوا ریکارڈ آج تک دنیا توڑ نہیں سکی لیکن اپنی ہاکی کو ہم نے خود ہی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا اس وقت بھی ہماری ہاکی فیڈریشن دو حصوں میںتقسیم ہے ایک کے صدر طارق بگٹی ہیں جو وزیر اعلی بلوچستان کے بھائی ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی صدر پیپلز پارٹی کی جیالی شہلا رضا ہیں ہماری ہاکی تو پہلے ہی ختم ہے رہی سہی کسر ان دونوں گروپوں نے پوری کررکھی ہے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑی سو رہے ہیں اسی طرح سکوائش میں ہمارے بنائے ہوئے ریکاڑ آج تک کوئی توڑ نہیںپایا جہانگیر خان نے چھ بار ورلڈ اوپن ٹائٹل جیتاجبکہ برٹش اوپن ٹائٹل دس بار (1982–1991)مسلسل جیت کر ورلڈ ریکارڈ کے طور پر اپنے نام کیا انہوں نے لگاتار 555 میچ جیتے جو گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈکا شاندار باب ہے انکے بعد جان شیر خان عالمی نمبر 1 بن گئے جنہوں نے آٹھ بار ورلڈ اوپن اور چھ بار برٹش اوپن ٹائٹل جیتالیکن اس کھیل میں بھی سیاست آئی تو یہ بھی ختم ہوگیا کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی ہم عمران خان کی کپتانی میں اس لیے جیت گئے تھے کہ اس وقت اس کھیل میں بھی سیاست نہیں تھی اسی طرح پہلوانی جسے کشتی بھی کہا جاتا ہے اس کھیل میں بھی ہم نے حکمرانی کی عظیم گاما (غلام محمد بخش بٹ) پہلوان جو رستم زماں رہے جھارا پہلوان رستم ہندرہے اور بشیر عرف بھولا بھالا رستم پاکستان جیسے پہلوان آج بھی ہماری نوجوان نسل کو فن پہلوانی سکھانے میں مصروف ہیں اسی کھیل سے ریسلنگ کا آغاز ہوا مگر بدقسمتی سے ہم رستم زماں،رستم ہند جیسے ٹائیٹل رکھنے کے باوجود اپنے اس پہلوانی کے کھیل میں بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے اس کھیل میں سیاست تو نہیںآئی لیکن ہمارے سیاست دانوں کی لاپرواہی نے اس کھیل کو ختم کردیا جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر بدمعاشی والی پہلوانی کو فروغ دیا اسلحہ کے زور پر قتل وغارت کا ایسا کھیل شروع ہوا جو ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ ہمارے اصل پہلوان وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کھیل سے دور ہیں ہماری حکومتوں کی ان پر توجہ نہیں ہے پاکستان سپورٹ بورڈ میںکھلاڑیوں کے نام پر جو تھوڑے بہت پیسے آتے ہیں انکی بھی بندر بانٹ ہو جاتی ہے جو خوراک ایک کھلاڑی کو ملنی چاہیے وہ نہیںملتی پیسے نہیں ملتے پاکستان سپورٹس بورڈ میںتعیناتیاں سفارش پر ہو رہی ہیں جوکھلاڑیوں کی نوکری کرنے کی بجائے اپنے آقائوں کی غلامی کذار رہے ہیں کھلاڑیوں کے نام پر آنے والا راشن کہیں اور چلا جاتا ہے ہوسٹک کے کمروں سے بو آرہی ہوتی ہے اور تو اور جو کوچ رکھے ہوئے ہیں انکا معاوضہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح ہمارا پنجاب سپورٹس بورڈ ہے جو صوبائی سطح پر کام کرتا ہے اسکا کام پاکستان سپورٹس بورڈ سے قدرے بہتر ہے لیکن پھر بھی اتنا تسلی بخش نہیں ہے کہ جس سے ہم سمجھیں کہ پاکستان انکی وجہ سے ملک میںکھیلوں کی ترقی ہورہی ہے چند دن پہلے ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ پر میرے پروگرام رائونڈ دی گرائونڈ میں پاکستان میں پہلوانی کے کوچ فرید احمد پاکستان کے دو مایہ ناز پہلوان گلزار گلو اور رضا بٹ تشریف لائے جنہوں نے اس کھیل میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا خاص طور پرپہلوانی کے اس کھیل میں آنے والوں کی خوراک کے حوالہ سے جو کچھ بتایا وہ اتنا مہنگا کام ہے کہ ایک عام گھرانے کا بچہ پہلوان بننے کا صرف سوچ سکتا ہے بن نہیںسکتا اس لیے ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ کم از کم کھیلوں کو سیاست سے پاک کرکے نام ور کھلاڑیوں کو مختلف فیڈریشنز میں لایا جائے جو ماضی میں پاکستان کی پہچان رہے ہوں جن سینے پر تمغے ہو اور جن کی دماغ میں پاکستان کی سربلندی ہو تاکہ ہم ایک بار پھردنیا کو بتا سکیں کہ ہم سے کوئی بڑھ کر ہے تو سامنے آئے اگر ہمنے ہر کھیل کو سیاسی بنادیا تو پھر وہی ہوگا جو اب ہونا شروع ہوچکا ہے کہ کھلاڑی باہر جاتے توہیں کھیلنے لیکن جیسے ہی انہیںموقعہ ملتا ہے فرار ہوجاتے ہیں بلکہ ایک بار تو ہماری پوری کی پوری ٹیم ہی غائب ہوگئی
0 75 5 minutes read