
ان اللہ یا امر بالعدل ولا حسان: بے شک تمہارا پروردگار عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ خالق کائنات نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلائو۔ دنیاوی زندگی کے لیے اللہ تعالی نے کمال رحمت سے اپنے آخری نبی محمد کے ذریعے ہمیں ایک تحریری (Code of Life) ضابطہ حیات قرآن مجید عطا کردیا ہے۔ جس پر عمل کرکے ہم دین اور دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالی نے ابلیس لعین کو اپنی بے انتہا عبادت کے سبب عزاز یل یعنی فرشتوں کے سردار کا منصب عطا فرمایا تو وہ غرور اور تکبر میں مبتلا ہوا۔ اللہ تعالی نے تخلیق آدم فرمائی تو تمام فرشتوں نے اپنی حد تک دی گئی عقل و دانش کے سبب پروردگار عالم سے عرض کیا کہ اے ہمارے خالق انسان زمین پر پہلی مخلوق جن کی طرح فساد برپا کر دے گا تو فرمان خداوندی ہوا کہ جو میں (یعنی تمہارا پروردگار) جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے تخلیق آدم کے بعد ان کے جسم میں روح پیدا کرکے داخل فرمائی گئی تو فرشتوں نے دیکھا کہ ابھی جان سیدنا آدم کے جسم میں پوری طرح حلول کر پائی تھی کہ سیدنا آدم نے اٹھنے کا ارادہ فرمایا جسے دیکھ کر فرشتوں نے عرض کیا کہ انسان شتاب کار ہوگا آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو تمام فرشتوں نے فورا حکم باری تعالی کی اطاعت کی اور سجدہ تعظیمی بجالائے مگر عزازیل کھڑا رہا اور آدم کو سجدہ نہ کیا اللہ تعالی نے عزازیل سے وجہ انکار دریافت فرمائی تو اس نے کہا کہ میں نار سے تخلیق کیا گیا ہوں جبکہ آدم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے اللہ تعالی نے پھر سجدہ کا حکم دیا تو عزازیل پھر انکاری ہوا، تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان پھر انکاری ہی رہا۔ تو پروردگار وحدہ لاشریک نے اسے مردود فرما کر آسمانوں سے نیچے پھینک دینے کا حکم دیا۔ اس نے اللہ تعالی سے اجازت مانگی کہ مجھے انسانوں کو گمراہ کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ باری تعالی نے اسے فرمایا کہ تمہیں اجازت ہے مگر میرے بندے تو کبھی گمراہ نہ کر سکے گا۔ اس وقت سے لیکر قیامت تک شیطان مردود انسانوں کو گمراہ کرکے باری تعالی کا نا فرمان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر اللہ کے بندے کبھی اس کے دام میں نہیں آئے اور پروردگار عالم کمال مہربانی سے اپنے بندوں کو شیطان مردود کی شرانگیزی سے بچا لیتا ہے۔کچھ لوگوں نے زندگی میں اللہ تعالی کے احکامات کی کھلی نافرمانی اور شیطان کی کھلی اطاعت کو اپنی زندگی کا محور اور مقصد بنا لیا ہے وہ اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور مجسم گناہ بن کر دنیا کے لہو لعب میں مستغرق ہو چکے ہیں شیطان کے پیروکار بن کر گناہ آلود زندگی گزارنا اور حلق خدا کو اذیت دینے کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ اپنے بدبودار اعمال سے پورے معاشرے کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کسی سرکاری منصب پر براجمان ہو جائیں تو خلق خدا کو زچ کرتے ہیں اور اللہ کی زمین پر فساد پھیلا کر خلق خدا کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جہاں شیطان کے ہرکار ے اپنی پوری طاغوتی قوتوں سے مل کر انسانوں کی زندگی اجیرن کرکے زمین پر فساد بر پا کر رہے ہیں اللہ تعالی کے نیک بندے پوری طاقت سے انسانوں کی زندگی سہل بنانے میں مصروف عمل ہیں اور رفاعی فلاحی کام کر رہے ہیں فلاحی ادارے قائم کرکے غربا، مساکین، یتیموں کی زندگی میں خوشیاں بانٹنے کا کام خاموشی سے سرانجام دے رکھے ہیں۔
بعض شر پسند سرکاری عہدوں پر براجمان ہو کر اس قدر گناہ کماتے ہیں کہ دوزخ میں اپنے لیے ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ سرکاری وسائل لوٹ کر دنیا میں محل بنا کر عیاشی کی زندگی گزارنا ان کا نصب العین ہوتا ہے۔ اس فانی دنیا بڑے بڑے دنیاوی جاہ جلال والے بادشاہ آئے۔ مگر اپنی تمام ترحشر سامانی اور کروفر کے باوجود فنا ہو کر دارفانی سے کوچ کر گئے شیطان کے ہر کارے خود تو مر گئے اور اپنے اعمال کا حساب دینے ابدی دنیا کے اصلی حاکم کے سامنے مع اپنے اعمال بد پیش ہوگئے۔ انہوں نے اپنی سرکشی اور نافرمانی کے سبب اصلی حاکم کو ناراض کر لیا اور دوزخ نشین ہوگئے ادھر فانی دنیا میں بھی ان کی مکروہ بدعمالیاں ان کی یاد دلا رہی ہے اگر وہ خوش قسمت ہوتے تو اللہ تعالی کی اطاعت بجالاتے اور آج ان کے اعمال کی خوشبو سے دنیا مہک رہی ہوتی مگر ان بدنصیبوں نے اپنے لیے دنیاوی جاہ جلال اور خداوندتعالی کی نافرمانی کو پسند کیا۔ عیش و طرب میں مشغول ہو کر باری تعالی کے باغی اور غدار بن گئے۔ اعمال کی خوشبو بھی ہوتی ہے اور بد بو بھی اللہ تعالی کی نافرمانی میں کیے گئے تمام اعمال بد بودار ہوں گے اور اطاعت و فرمان برداری میں کیے تمام اعمال خوشبو دار ہوں گے جو رہتی دنیا تک قائم اور اپنی خوشبو پھیلاتے رہیں گے فرعون اپنی سرکشی کے سبب غرقاب ہوا، شداد نے دعوی خدائی کیا اور ذلیل ہوا بخت نصر بھی اپنی سرکشی اور نافرمانی کے سبب ذلیل ہو کر واصل جہنم ہوا خدا تعالی کے تمام باغی ذلیل ہو کر اپنے برے انجام کو پہنچے