قارئین!ملک عزیز پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ارباب اختیار افیون اور بھنگ کے نشے میں مست لگ رہے ہیں۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک دنیا کے افق پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم نہ وطن کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ اس سوونا اگلتی زمین سے کوئی فائدہ اٹھاانے کی حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں۔ملک زرعی ہے۔ چینی غریب کی قوت خرید سے باہر ہے۔ کھیت ذرخیز ہیں۔روٹی مزدور کی پہنچ سے کوسوں دور۔۔۔ دنیا کا سب سے قیمتی کپڑا فیصل آباد میں تیار ہوتا ہے لیکن عوام کے لئے تن ڈھانپنے کا انتظام نہیں۔ڈگریوں کی بہتات ہے ، مگر نوجان روڈ ماسٹری پر مجبور ہیں۔ یہ کیسا ملک ہی جہاں ساون کے اندھوں کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ ہمارے ارباب اختیارسب ٹھیک ہے کی گردان دہرائے جا رہے ہیں۔ مجھے بتائیے کیا خاک ٹھیک ہے۔ کوئی پاکستانی چاہے وہ نائب قاصد ہو یا اوور گریڈ آفیسر، چاہے وزیر ہو یا گورنر اس کے پاس اتنابھی اعتبار نہیں کہ وہ صبح گھر سے نکلے گا اور شام کو صحیح سلامت گھر لوٹے گا۔ ہر کسی کے ذہن میں غیر طبعی موت کا خوف منڈلا رہا ہے۔ ہم کس ملک کے باشندے ہیں جو اپنی دھرتی ماں کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔گلیشئیرز کی بہتات ہے، پانیوں سے ملک عزیز لبریز ہے لیکن پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مفلس لوڈ شیڈنگ میں جھلس رہا ہے۔ونڈ پاورز لگانے کے لئے بے شمار مقامات ہیں مگر ہمارے حکمران اے سی کی ونڈ سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ کون پاور ملز لگائے ؟؟ ملک میں چار موسم ہیں لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ ہاں گرمیوں میں ہمارے بڑے مری، کاغان اور اسی طرح کی ٹھنڈی جگہوں پر سرکاری مراعات پر بیوی بچوں سمیت جا کہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ لگتا ہے سرکاری پیسہ ان اہل اختیار کے باپ دادا کی وراثت ہے۔جب جی چاہا شاپنگ کر لی جب جی چاہا داد عیش وصول کر لی۔ یہ ساری ساری رات گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں اور صبح خوشبو دار صابن سے نہا کہ اور امپورٹڈ تولیوں سے بدن صاف کر کے کلف شدہ کپڑے پہن کہ اور فرانس کے پرفیوم لگا کہ خود کو پاک صاف سمجھتے ہیں۔ اللہ ان کے دماغوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے کہ یہ عوام کے منتخب لوگ ہیں اور قیامت کے دن ان سے زرہ زرہ حساب لیا جائے گا۔یہ خود کو فطرت سے ما وراء سمجھتے ہیں۔ کاش کوئی ان سے پوچھے کہ تمہاری پیدائش کس طرح ہوئی۔ کیا تم غریب سے الگ طریقے سے پیدا ہوئے ہو۔ کیا تمہارے باپ یا ماں میں کوئی اضافی چیز تھی جو غریب کے ماں باپ میں نہیں تھی۔کیا تمہارے خون کے اجزائے ترکیبی غریب کے خون سے مختلف ہیں۔ کیا تمہارا بدن سونے چااندی اور جواہرات سے بنا ہے جو غریب کے جسم میں نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو تم کس لئے بلا وجہ اکڑ اکڑ کر زمین پر چلتے ہو۔ جب کہ تمہاری اوقات تم خود بھی جانتے ہو۔گندے نطفے سے پیدا ہونے والو اہل ثروت لوگو خدا راہ اپنے ذہنوں کو صاف رکھو۔ اس میں بھی اسی کی ملاوٹ نہ کو جس سے تم تخلیق کئے گئے ہو۔اے میرے وطن کے مالکو اس وطن نے تمہیں کیا نہیں دیا؟؟ تم اس کو چیلوں اور کتوںکی طرح کیوں نوچ نوچ کر کھا رہے ہو۔ اپنا نہیں سوچتے تو اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچو۔ تمہاری کمائی سے وہ بھی حرام خور اور ملک دشمن معاملات میں تمہارے بھی وڈیرے بنیں گے۔اگر میری تحریر سے کسی کو اختلاف ہے تو میرا ای میل آپ کے لئے ہر وقت کھلا رہے گا۔ rajashahzad733@gmail.comآپ میں سے پرکسی بھی وقت باز پرس کر سکتے ہیں۔ اللہ کا واسطہ اسلاف کے بنائے گئے اسکے ملک کو رنڈی خانہ نہ بنائو۔ اگر آپ کو بہت ہی شوق ہے تو ان کاموں کو گھروں تک محدود رکھو۔ غریبوں اور ناداروں کو مجبور نہ کرو کہ وہ تمہارا شجرہ ساری قوم کے سامنے کھول کہ رکھ دیں۔ خدا راہ اپنے اعمال اور افعال میں ہم آہنگی پیدا کرو۔ شرافت کے لبادے میں مفلسوں کا استحصال بند کر دو۔ ورنہ یاد رکھو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ تم قانون خرید سکتے ہو۔ پولیس کو زیر اثر کر سکتے ہو۔ مگر حاکم اعلیٰ جو عرش پر تمہارے تماشے دیکھ رہا ہے اس کو کیسے دھوکہ دو گے؟؟کالم کی وساطت سے التماس کرتا ہوں کہ سدھر جائو۔ ورنہ تم نمرود سے زیادہ طاقتور نہیں ہو۔ تم فرعون کا عشر عشیر بھی نہیں۔ تم شداد کے مقابلے میں دولت کے حساب سے مچھر کے برابر بھی نہیں۔ تم شاہ روم کی دولت کے بارے میں گمان ہی کر سکتے ہو۔ تم قیصر و کسریٰ کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے آج کے فقیر ہو۔ اگر اللہ نے ان سب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تو تم کس باغ کی مولی ہو۔ اب بھی وقت ہے حلال حرام کی تمیز کرو اور عوام کے پیسوں سے سرکاری ہوٹر لگا کر عوام کی بیخ کنی سے باز آ جائو۔ ورنہ اللہ کا طوق تمہاری گردنوں پر منڈلا رہا ہے۔ اس دن سے ڈرو جب خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ اور تاریخ کا مطالعہ کر کہ دیکھو کہ تم جیسوں کا انجام کھائے ہوئے بھس کی طرح کا ہوتا ہے۔ اب بھی توبہ کر کہ عوامی خدمت کو اپنا شعار بنا لو۔
0 50 4 minutes read