اردو صحافت و ادب کی بنیادوں میں شامل نایاب لکھاریوں کے نام اور کام،اردو صحافت کی تاریخ قیام پاکستان سے پہلے کی ہے یعنی کہ آزادی ہندوپاک سے پہلے شروع ہوئی تھی ہندوستان میں صحافت کی تاریخ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ ہے ایسٹ انڈیا کمپنی میں جیمس ا?گسٹس ہیکی جو طباعت سے کام سے وابستہ تھا اس نے ہندوستان کی زمین پرصحافت کی ابتدا کرتے ہوئے ہیکز بنگال گیزٹ کے نام سے ایک اخبار 1780میں جاری کیا چار صفات پر مشتمل اس اخبار نے کلکتہ کی سیاسی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی حکومت نے اس کی خبروں کی وجہ سے اس کے اشاعت خانے اپنی تحویل میں لے لیے اور ہیکز گیزٹ مارچ 1782میں بند ہو گیااس کے دس ماہ بعد بی میسنگ کی ادارت میں انڈیا گیزٹ نکلا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی اخبار نکلنے شروع ہو گے جو انگریزی فارسی بنگالی زبانوں پر مشتمل تھے مگر ہمارا موضوع اردو صحافت ہے جیسے دو سو سال سے زائد ہو چکے ہیں صحافت عربی زبان کے لفظ صحف سے ماخوز ہے جس نے معنی صفحہ کتاب یا رسالہ اور صحافی کے ہیں۔اردو کا پہلاہفتہ وار اخبار جام جہاں نما 27مارچ 1822میں کلکتہ سے شائع ہواجو پوری طرح اردو کا اخبار نہیں تھا کیونکہ اس میں فارسی کے مضمون بھی شائع ہوتے تھے جام جہاں نما کے مالک ہری ہردت ایڈیٹر مدیرمنشی سدا سکھ لال تھے اردو کے اشتراک سے یہ پہلا مطبوعہ ہفت روزہ اخبار پانچ سال آٹھ ماہ جاری رہنے کے بعد23جنوری 1828کو بند ہو گیا تھا۔ہندوستان سے جوسوفیصد اردو کا پہلااخبار1836میں شائع ہوا وہ دہلی اردواخبار تھاجس کے ایڈیٹر مدیرمولوی محمد باقر تھے جواردو کے نامور ادیب مولانا محمد حسین ا?زاد کے والد تھے۔12جولائی 1857میں اس کا نام بدل کر اخبار الظفر رکھ دیا گیا۔
اس سے پہلے انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی اخبارسلطان الاکبر،سراج الاکبر،ہفتہ وارصادق الاخبار بہاولپور وغیرہ شائع ہوتے تھے۔محمد باقر دہلی کالج میں پریس کے نگران مقررہوئے اسی دوران انگریزی اخبار کے مالک پرنسپل ٹیلر نے پریس بیچنے کی خواہش کی تو مولوی محمد باقر نے اسے خرید لیا۔ 1857میںدہلی انقلابی بغاوت کے موقع پر مولوی باقر نے خود تمام مقامات پر پہنچ کر کوریج کی اور رپورٹ شائع کی اسی موقع پر دہلی اردو اخبار کا نام اخبار الظفر رکھ دیا گیا تاکہ تمام علم بغاوت بلند کرنے والے انقلابی باغی آزادی کے محور بن کر آگے بڑھتے رہیںان کی حوصلہ افزائی وترجمانی میں نظمیںاور تحریروں جوشیلے انداز میں پیش کرکے تحریک آزادی کو تقویت دی جس کے نتیجے میںانہیں انگریز حکومت نے توپ سے اْڑا دیا تھااس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو صحافت کے ڈی این اے میں ہی جھوٹ و غلامی سے بغاوت کرکے حق کے ساتھ کھڑا ہونا شامل ہے آئیے اردو اخبارات کی بنیاد سے آگے بڑھتے ہوئے ان کے نام کام اور مقام کے بارے میں مزید آگہی لیتے ہیں۔ہفت روزہ اخباراودھ پنچ،منشی سجاد حسین نے یہ اردو اخبارنکالا جس کا نام اودھ پنچ1877لکھنو سے لندن پنچ کی طرز پرشائع کیا جس کے ایڈیٹر و مدیر کے عہدے پررتن ناتھ سرشارر،منشی سجاد حسین،مولانا عبدالحلیم شر رفائزرہے اردو کے مزاحیہ مضامین کی ابتدا بھی اسی اخبار اودھ پنچ سے ہوئی جو 1912تک 35سال شائع ہوتا رہا جس کی مقبولیت و طرز سے متاثر ہو کر کئی اخبار پنچ نام لگا کر نکلے سرپنچ ہندپنجاب پنچ لاہور پنچ کلکتہ پنچ انڈیا پنچ بنگال پنچ کشمیر پنچ وغیرہ وغیرہ۔اودھ پنچ کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس کے مدیر منشی سجادحسین نے پہلے سال میں ہی ایسے ایسے سحر البیان جادونگار اہل قلم ڈھونڈنکالے جو اردو ادب کے آسمان پرآ?فتاب و مہتاب بن کر چمکے جس میں مچھو بیگ ستم ظریف۔منشی جوالا پرشاد برق۔ تربھوناتھ ہجر۔سید محمد آزاد۔منشی احمد علی شوق۔احمد علی کسمنڈوی۔ اکبر الہ آدی جیسے نام قابل اہمیت تھے۔اودھ پنچ کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین نے عوامی پزیرائی میں کھلے خط اور بربستہ مضامین کے سلسلے کی بھی بنیاد رکھی ان کی اپنی تحریروں میں شگفتہ مزاح تھا۔مچھو بیگ ستم ظریف نے واقعات اور مناظر کولکھنوکی ٹکسالی زبان سے دلکش مزاحیہ اندازسے قارئین کو لطف اندوز کرنے والے مضمون کو قلمبند کیا۔منشی جوالا پرشاد برق ایک باشعور ادیب تھے جنہوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف مزاحیہ و طنزیہ مضامین لکھے جیسے البرت بل جوڈیشنل کمشنری۔تربھوناتھ ہجر نے اپنے زمانے کی معاشرتی زندگی کی ظریفانہ انداز میں قلمی تصویر کشی کی ہولی کی بہاریں اور محرم الحرام ان کے دلچسپ مضامین تھے۔دوسرے اخبار خاص طور پر منشی نول کشورکے اودھ اخبار سے اس کی نوک جھونگ چلتی رہتی تھی اودھ پنچ اخبار 1912میں بند ہو گیا تھا منشی سجاد حید ر 1856میں کاکوری میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام منشی منصور علی تھا جو ڈپٹی کلکٹر تھے بعد میں حیدرآباد کے سول جج ہوئے منشی سجاد حسین 1887میں کانگرس میں شامل ہوئے اورآخر تک سرگرم رکن رہے۔1904میںفالج کا اٹیک ہوا اور 22جنوری 1915کو یہ آفتاب مزاح وظرافت ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا منشی سجاد حسین اردوصحافت میں ظرافت کے بابا آدم تھے طنزو مزاح وظرافت کے وہ گلشن تھے جنہوں نے اپنے بعد کئی پھول مطالعے کے جہان میں مہکنے کو چھوڑے جو انہیں پڑھ پڑھ کر لکھنے کے فن سے ا?شنا ہوئے ان کی تحریروں میں آزاد خیالی بے باکی صاف گوئی کی وہ جھلک تھی جیسے پڑھنے والے تادیر اثر میں رہتے روزمرہ محاورات کے ساتھ ضرب المثال وتمثیلات کی چاشنی حسن قلم تھی انہوں نے اردو ناول نویسی کے نقائص دور کرنے کی طرف خاص توجہ دی اور ان میں منفرد حسن سے منظر کشی کی وہ چاشنی برپا کی جس نے ناول کو پچھلے راستوں پر لوٹنے کی بجائے فقطآگے بڑھنے والے قدم دئیے۔ان کے شہرہ آفاق ناول میں احمق الدین ،میٹھی چھری ،پیاری دنیا ،طرفدار لونڈی ،کایا پلٹ،حیات، شیخ چلی شامل ہیں۔روزنامہ زمیدار جس کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خاں تھے جو 1873میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ا?پ کی وفات 27نومبر1956میں وزیرآباد میں ہوئی مولانا ظفر علی خاں کو بے مثل صحافت نگاری پربابا صحافت کے خطاب سے نوازا گیا مولانا ظفر علی خاں معیاری صحافت کے بانی اور اکثرصحافیوں کے راہنما وسرپرست تھے آج بھی اردو صحافت کے علوم و شعور کے لیے مولانا ظفر علی خاں کے طرز صحافت کے مطالعے کا تقاضا کرتا ہے شگفتہ وعام فہم نثر کے روح رواں مولانا ظفر علی خاں متعددکتابیں تخلیق کرکے گئے جس میں معرکہ مذہب و سائنس ،خیابان فارس ،ڈرامہ جنگ روس و جاپان شہرہ آفاق ہیں۔زمیدار ایک ہفت روزہ اخبار کی حیثیت سے مولانا ظفر علی خاں کے والد منشی سراج الدین احمد نے جنوری 1903میں ہفتہ وار میگزین کی شکل میں لاہورسے جاری کیا تھا 1909میں ظفر علی خاں کے والد منشی سراج الدین کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ظفر علی خان نے زمیدار اخبار کی سرپرستی و زمہ داری سنبھالی ہفت روز زمیدار جو لاہور سے پہلے کرم آباد منتقل ہوا تھا دوبارہ1911 میںاس کا دفتر لاہور واپس آگیامولانا ظفر علی خاں کی جادوئی صحافت کی بدولت ترقی عوامی پسندیدگی کی بدولت روزنامہ زمیدار بن گیایکم مئی 1909کو پہلی دفعہ روزنامہ زمیدار کے نام سے شائع ہونے والا انڈین مسلم نیوز پیپر تھا روزنامہ زمیدار نے لوگوں میں اخبار بینی کے شوق کی وہ فضا پیدا کی جس نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر تاریخ رقم کی۔
0 51 5 minutes read