کالم

بھارت کا اپنا امیج

افراد کی طرح قومیں بھی اپنے امیج کی اسیر ہوتی ہیں اور ہوسکتی ہیں اور یہی امیج ان کے قول و فعل کی بنیاد بنتا ہے۔ اس لیے اس امیج کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھارت دشمنی تو جی بھر کر ہوتی ہے لیکن ہم نے شاذ و نادر ہی بھارت کے Self Image کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ہی نہیں ہمارے مختلف حکمران اور پالیسی ساز بھارت کے سلسلے میں کوئی ایسی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر رہے ہیں جس کی بنیاد پر ہم بھارت کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں کہ اگر ہمیں بھارت کے پڑوس میں ایک زندہ، آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے باقی رہنا ہے تو اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ بھارت کے Self Image کے حوالے سے چار چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں:
-1 بھارت کا حجم
-2 اس کی تاریخ، تہذیب اور کلچر
-3 ہندوئوں کا مسلمانوں کے حوالے سے مخصوص تاریخی تجربہ
-4 بھارت کی فوجی طاقت
بھارت رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے۔ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بڑے ملک اور بھی ہیں لیکن ہندوئوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے حجم کو اپنی پوری تاریخ میں موجود پاتے ہیں۔ امریکا رقبے کے اعتبار سے بڑا ملک ہے، کینیڈا کا جغرافیہ بھی بہت وسیع ہے لیکن امریکا اور کینیڈا کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے تاہم بھارت ورش ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے ایک ناقابل تقسیم وحدت رہا ہے یا نہیں اس بارے میں بہت سی آرا موجود ہیں لیکن ہندو بہرحال بھارت کو تاریخ کے سفر میں ناقابل تقسیم وحدت دیکھتے ہیں۔ ان کا یہ خیال درست ہو یا غلط لیکن بہرحال وہ اس سے ایک طرح کی عظمت کا احساس کشید کرتے ہیں۔ عظمت کا یہ احساس ان کے Self Image کا حصہ ہے۔بھارت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ہندو ازم کی تاریخ لیکن یہ تاریخ صرف پرانی ہی نہیں ہے۔ اس تاریخ کے دامن میں ایک ایسی تہذیب بھی ہے جو ہر اعتبار سے ایک خود مکتفی تہذیب تھی اور جس نے زندگی کے ہر دائرے میں کمال پیدا کرکے دکھایا تھا، اس تہذیب کے نمائندے وید ہیں، مہا بھارت ہے، گیتا ہے، کرشن ہیں، رام ہیں، اس تہذیب کے دائرے میں فنون پھلتے پھولتے دکھائی دیتے ہیں، اس کے پاس بڑا آرٹ ہے۔ ایسا فلسفہ ہے کہ جس کی بنیاد پر علامہ اقبال کو ایک فلسفہ زدہ سید زادے سے کہنا پڑا کہ بھئی تم مجھے فلسفہ کیا سکھائو گے میں تو اصل کا خاص سومناتی ہوں اور فلسفہ تو میری آب و گِل میں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہندوئوں نے اپنی اس قدامت کو ایک Commodity اور سیاحوں کی دلچسپی کی چیز بنادیا ہے لیکن یہ قدامت اور اس قدامت کا تنوع اور اس تنوع میں مضمر کمال ہندوئوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اس تنوع کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ جنوبی ہندوستان میں راون ایک دیوتا ہے اور شمالی ہندوستان میں رام۔ ایک جگہ رام کو جلایا جاتا ہے اور دوسری جگہ راون کو، مگر اس کے باوجود رام کو جلانے والے بھی ہندو ہیں اور راون کو پھونکنے والے بھی ہندو۔ہندوئوں کے نزدیک برصغیر میں وارِد ہونے والے مسلمانوں کے تین بڑے جرائم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ ایک اقلیت ہونے کے باوجود ہندو کلچر کا حصہ نہیں بنے۔ حالانکہ بھارت کی تاریخ یہی ہے کہ یہاں جو آیا ہندو کلچر کا حصہ بن گیا۔ اس سلسلے میں ہندوئوں اور ان کے کلچر نے ایسے ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس کمال کی ایک مثال سکھ ہیں۔ بابا گرونانک وحدت پرست تھے اور گروگرنتھ صاحب میں مسلم صوفیا کے اقوال موجود ہیں اس اعتبار سے سکھوں کو مسلمانوں کے قریب ہونا چاہیے تھا لیکن ہندو ذہن اور ہندو کلچر انہیں ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوگیا اس طرح کہ تقسیم برصغیر کے وقت ہندوئوں نے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف اس طرح استعمال کیا کہ بایدوشاید۔ ہندوئوں کے نزدیک مسلمانوں کا دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود مختلف عنوانات کے تحت ہزار سال تک ان پر حکمران رہے۔ مسلمانوں کا تیسرا بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے انگریزوں کی ماتحتی تو قبول کرلی لیکن انگریزوں کے چلے جانے کی صورت میں ہندوئوں کی غلامی پر آمادہ نہ ہوئے اور پاکستان بنا کر بھارت ماتا کے جو ان کے نزدیک ہمیشہ ناقابل تقسیم رہی ہے، ٹکڑے کردیے۔ یہ ایک ایسا تاریخی تجربہ ہے جو برصغیر کے مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے ہندو نفسیات کا ایک جزولانیفک بن گیا ہے اور ہندو شاید ہی کبھی اس سے نجات حاصل کرسکیں۔
اس کی شدت کا مظہر سقوط ڈھاکا کے بعد اندرا گاندھی یہ بیان تھا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے بلکہ ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔ اندرا گاندھی ایک سیکولر رہنما تھیں اور انہوں نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کرکے پاکستان کو شرمناک شکست دی تھی ان کے جذبہ انتقام کی تسکین کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنی فتح پر شادیانے بجا لیتیں، لیکن وہ ایک ہزار سالہ تاریخ کو پھلانگ نہیں سکیں۔ اگرچہ ہندوئوں کا یہ تاریخی تجربہ ان کے Self Image کا حصہ ہے لیکن یہ صرف پاکستان سے متعلق ہے اور عمومی سطح پر اس کا ظہور نہیں ہوتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button