یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کیا۔عام آدمی مایوس دکھائی دیتا ہے جبکہ نوجوان طبقہ کی سوچ پر غصہ اور جذباتی رویہ غالب ہے۔تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی بحران کا ذمہ ہے دار کون۔۔؟ سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ۔کیا سیاستدان یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتی ہے۔بظاہر خراب ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔مسلم لیگی قیادت مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتی ہے تو پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ کی جانب بھی اشاروں کنایوں میں بات کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب عمران خان کو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ملک میں احتجاج، ہنگامے، گرفتاریاں،تشدد اور سیاسی عدم برداشت اور تقسیم گہری سے گہری ہوتی گئی۔پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت نے مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔نگران حکومتیں قائم ہوئیں۔قومی انتخابات مکمل ہوئے لیکن بے یقینی کی صورتحال جاری ہے۔مگر جب یہ سوال سیاستدانوں سے کیا جاتا ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے تو ان کے جوابات میں کہیں ذمہ داری نظر نہیں آتی اور الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
8فروری سے قبل انتخابات کے انعقاد کو مسائل کا حل قرار دیا جاتا رہا۔انتخابات کے حوالہ سے سب سے شفافیت اور لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہونااہم تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔شومئی قسمت انتخابات کے بعد نتائج کو لیکر نئے مسائل کھڑے ہوگئے۔ایک طرف منقسم مینڈیٹ اور دوسری طرف سیاسی تقسیم مزید گہری ہوگئی۔”پاکستان کو نواز دو” کا نعرہ لگانے والے نواز کی جگہ شہباز کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔بلاول بھٹو پرانی سیاست ختم کرنے کی خواہش لیکر انتخابی میدان میں خوب گرجے لیکن نتیجہ وہی آیا، پی ڈی ایم کا تسلسل شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے۔پنجاب کی وزارت اعلی مریم نواز کے حصہ میں آئی۔ ماضی قریب میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرناپڑی تھیں تو آج پی ٹی آئی کو اس سے بھی زیادہ تکالیف کا سامنا ہے۔سب کچھ ہونے کے باوجود انتقام کا جذبہ کم نہیں ہوا۔پی پی پی کی قیادت سیاسی انتقام کو ختم کرنے کی بات کرتی رہی لیکن اس سوچ کو دیگر جماعتوں نے نہیں اپنایا۔وفاق سمیت صوبائی حکومتیں قائم ہو جائیں گی لیکن سیاسی استحکام خواب ہی رہے گا۔ پی ٹی آئی کے بانی چیرمین پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہیں۔نتائج مسترد کرکے احتجاج اور مسلسل احتجاج، ایک طرف قانونی جنگ دوسری طرف سیاسی دباو حکومت کے لیے چیلنج ہی چیلنج ہیں۔معاشی مسائل کا حل، کوئی جامع پالیسی کچھ بھی تو نہیں۔ملکی سیاست شخصیات کے گرد ہی گھومتی چلی آرہی ہے۔ قارئین کرام! بنیادی سوال تو یہی ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے اس کا جواب کوئی نہیں دیتا، صرف بیانات اور وہ بھی غضبناک، رویے افسوسناک، حالت عبرتناک لیکن مڈل کلاس اور غریب طبقہ کی معاشی حالت تیزی سے بدحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر واضح پوزیشن لیں۔ سیاسی فائدہ اٹھانے اور مظلومیت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی سزا سیاستدانوں اور ملک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ لیکن سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد کے سخت مخالف بھی اقتدار کے لیے اپنا کردار اور حصہ کے طلبگار بنے خفیہ تعلق اور سرپرستی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مسائل کے حل کی طرف آئیں تو اصولی بات ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا حل بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے میں ہی ہے۔بانی چیرمین پی ٹی آئی بات چیت سے انکار کرکے بری الذمہ نہیں ہوسکتے بلکہ مرکزی کردار بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے۔حکومت اپنا رویہ درست کرے یہ مقدمات اور گرفتاریاں بہت کچھ ہوچکا۔9مئی کے بعد 8فروری بھی گزر گئی۔قانون شکنی کی سزائیں ضرور ہوں لیکن سیاسی انتقام اب بند کرنا ہوگا۔
قوم کو ریلیف صرف اسی صورت میں ملے گا جب آئی ایم ایف آئے گا اور پاکستان کے دوست ممالک مطمئن ہوں گے اور سرمایہ کاری آئے گی۔ اس کے لیے سیاسی ماحول کا بہتر ہونا شرط اول ہے۔متفقہ قومی پالیسی کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار فوری طور پر ختم نہیں ہوسکتا،اس میں وقت لگے گا۔ سیاسی قیادت کو اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی۔سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کا فن ہے اس لیے سیاست کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔شخصیات پرستی چھوڑ کر وطن پرستی کی طرف لوٹنا ہوگا۔جماعت، فرد اور انفرادی حیثیت ملک کے سامنے کچھ بھی نہیں۔اجتماعی سوچ ہی منزل کی طرف لے جاسکتی ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں۔انٹرنیشنل تنظیموں، اداروں اور بیرون ممالک خطوط لکھنے سے مسائل کم نہیں ہونگے،مشکلات بڑھیں گی۔ہم آہنگی بڑھانے کی کلید سیاسی قیادت کے پاس ہے۔ہمارے مسائل اندورنی ہیں اور انکا حل بھی ملک کے اندر ہی موجود ہے۔اس لیے کسی اشارے،سہارے کا انتظار نہ کریں۔سیاسی قیادت پرفر ض ہے کہ وہ قوم کو مشکل سے نکالے،مشکل سے نکلنے کا واحد راستہ بہترسیاسی ماحول ہے۔اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
0 34 4 minutes read