کالم

قاعدہ

ہر شہری سے خواہ وہ غریب ہو یا امیر، اشیائے ضروریہ اور یوٹیلٹی بلوں پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرکے پوری کی جاتی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں وطن عزیز کا غریب اور متوسط طبقہ غریب تر جبکہ شاہانہ زندگی گزارنے والے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ غیر معمولی حجم کی حامل درآمدات ہمارے تجارتی عدم توازن کی بڑی وجہ ہیں جبکہ اندرونی طور پر محصولات اپنے اہداف سے بہت کم ہونے اور سرمایہ کاری کے فقدان سے قومی معیشت تباہی کے دہانے پر، اور یہ کیفیت ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پھر سے سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2019 میں انتہائی کڑی شرائط پر سات ارب ڈالر قرضے کا جو بیل آئوٹ پیکیج منظور کرایا تھا، اس کی مدت آئندہ ماہ ختم ہو رہی ہے اور، نگران وزیر خزانہ سمیت معاشی ماہرین نے آنے والے چار مہینوں میں قرضوں اور ان پر لاگو سود کی ادائیگیوں کے جو تخمینے لگائے ہیں، ان کی مالیت اسٹیٹ بینک کے پاس محفوظ غیر ملکی زرمبادلہ سے بہت زیادہ ہے۔ اس طرح نئے بیل آئوٹ پیکیج کی شکل میں مہنگائی کی ایک اور لہر آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس تناظر میں کہ بار بار بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی سے عام آدمی بہت پریشان ہے، غربت کی لکیر 33سے متجاوز ہوکر 40 فی صد پر جاچکی ہے، نگران حکومت نے سبک دوش ہونے سے پہلے آئی ایم ایف کی پچھلی شرائط پوری کرنے کی خاطر یکم فروری 2024 سے دوسری بار گیس کی قیمتوں میں 67فی صد اضافہ کردیا ہے جبکہ سال بھر کے دوران گیس مہنگی کرنے کا یہ تیسرا موقع ہے۔ دوسری طرف یکم فروری کو کیے جانے والے 13روپے فی لیٹر اضافے کے بعد 16فروری سے پٹرول دو روپے 73پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8روپے37پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کی رو سے پٹرول 275.62 اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 287.33 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔ کابینہ نے مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں پر 25فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔ 40لاکھ سے زائد مالیت کی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس لاگو ہوگا اور اس اقدام سے ایف بی آر کو چار ارب روپے سے زائد آمدنی ہوگی۔ یہ اضافہ آئندہ بجٹ میں بھی برقرار رکھے جانے کی تجویز ہے جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اسی شرح سے اضافہ ہوگا۔ ایف بی آر کی حد تک یہ اقدام سود مند ثابت ہوسکتا ہے تاہم سرکاری ضروریات کی غرض سے خریدی جانے والی گاڑیوں کا اثر قومی خزانے پر ہی پڑتا ہے کیونکہ قیمت سے زیادہ ان کی مینٹی ننس اور پٹرول کے اخراجات ہیں۔مراعات یافتہ طبقے کو دی جانے والی پٹرول، بجلی اور گیس سمیت دوسری مفت سہولتوں کی مالیت کا اندازہ لگانے کے لیے دوسال قبل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ملک میں سرکاری افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ اگر ایک لاکھ روپے ہے تو دوسری مراعات اور فائدے ماہانہ سات لاکھ سے زائد کے بنتے ہیں۔ اگر ٹیکسوں کے نظام کی بات کی جائے تو یہ حیرت کا مقام ہے کہ ملک کی 25کروڑ آبادی میں سے ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45لاکھ ہے جس کی کمی ہر شہری سے خواہ وہ غریب ہو یا امیر، اشیائے ضروریہ اور یوٹیلٹی بلوںپر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرکے پوری کی جاتی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں وطن عزیز کا غریب اور متوسط طبقہ غریب تر جبکہ شاہانہ زندگی گزارنے والے امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور دونوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ آنے والی پارلیمان ساری صورتحال کا ادراک کرے اور غریب کی مشکلات کم کی جائیں۔ حکومت کو گیس اور پٹرول کی گزشتہ دو مرتبہ بڑھی ہوئی قیمتیں فی الفور واپس لینی چاہئیں اور بیرونی تجارت میں توازن لانے کے ساتھ ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات لاکر آئی ایم ایف سے کنارہ کشی ہی بہتر راستہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button