شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی پیدائش ایک دینی گھرانہ میں ہوئی اور علم و عرفان کا خزانہ گھر ہی سے حاصل ہو گیا تھا ۔ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد شاہ عبد الرحیم سے حاصل کر کے خلیفہ ابو القاسم سے دیگر دینی علوم حاصل کئے اس کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع کر دیا۔فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے گئے تو حرمین شریفین میں کافی عرصہ قیام فرمایا اور وہاں کے نامور اساتذہ سے حدیث کی تعلیم مکمل کر کے باقاعدہ سند حاصل کی۔نادر شاہ کے حملہ سے تقریباً چار سال قبل دہلی واپس تشریف لائے۔ان دنوں ہندوستان میں توکارام اور ایک ناتھ کی تحریکوں نے مرہٹوں کے پائوں مضبوط کر دیئے تھے اور ان کا ستارہ بہت عروج پر تھا ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی ان کو ایک نظر نہ بھاتی تھی چنانچہ مر ہٹوں نے مسلمانوں پر پلیچھ کا لیبل لگا کر ہندوستان کی پوتر دھرتی کو ان سے پاک کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔مسلمانوں پر جینا دوبھر کر دیا اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے شروع کر دیئے تاکہ تنگ آکر وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں۔جہاں مسلمانوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی وہاں مرہٹوں کے اقتدار میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا ادھر مسلمان رہنمائوں کی حالت بہت ابتر تھی۔معمولی معمولی معاملات پر آپس میں لڑ جھگڑ کر کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے تھے۔ایسے میں مسلمانوں کا کوئی حامی اور مدگار نظر نہیں آتا تھا۔برّ صغیر میں مسلمانوں کے وجود اور مسلم تہذیب کو ختم کرنے کی سازش کو شاہ ولی اللہ نے بھانپ لیا اور ان کو مرہٹوں کے ظلم و استبداد سے بچانے کیلئے غور و فکر کیا۔آپ نے افغانستان کے جری اور بہادر حکمران احمد شاہ ابدالی کو مسلمانوں کی مظلومیت اور مرہٹوں کی زیادتیوں کے بارے میں تفصیلی خط لکھا۔نہ صرف مدد کی اپیل کی بلکہ ہندوستان پر حملہ کر کے اسلامی سلطنت قائم کرنے کی دعوت بھی دی۔خط کا متن :۔اگر قوم کفار اسی حال میں رہی اور مسلمان کمزور ہو گئے تو اسلام کا نام باقی نہ رہے گا۔یہاں مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے ۔اقتدار ہندئوں کے ہاتھ میں ہے ۔ہر قسم کی دولت ان کے گھر کی لونڈی ہے ۔افلاس و مصیبت کے بادل مسلمانوں پر چھائے ہوئے ہیں۔قوم مرہٹہ کا فتنہ بہت بڑا اور خطرناک ہے۔علماء کرام کی اکثریت ان کی مٹھی میں ہے ۔ان کو شکست دینا آسان کام نہیں ہے۔البتہ اگر غازیان اسلام ہمت باندھ لیں تو یہ کام کوئی مشکل بھی نہیں۔شاہ ولی اللہ کا درد بھرا خط پڑھ کر احمد شاہ ابدالی چونک پڑا اور بے چین ہو گیا ۔اس نے مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی قوت پر فیصلہ کن ضرب لگانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔1760ء کے آخر میں احمد شاہ اور مرہٹوں کی فوجیں پانی پت کے میدان میں آمنے سامنے دو ماہ تک معمولی جھڑپوں میں مصروف رہیں۔احمد شاہ نے ان کی کمک بند کرکے ان کو کھلے میدان میں آکر لڑنے پر مجبور کر دیا۔مرہٹوں نے توپوں کے شدید حملہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔احمد شاہ ابدالی نے مسلمان مجاہدین کے اندرجذبہ جہاد کو اُبھارا۔غازی یا شہید ہونیکی خوشخبری سُنائی۔مسلمان مجاہدین کے بھرپور حملہ سے صرف دو گھنٹوں میں مرہٹوں کو عبرتناک شکست کھا کر بھاگنا پڑا۔اس دوران دو لاکھ مرہٹوں کو جہنم رسید کیا گیااور چالیس ہزار کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔مرہٹوں کی کمر ٹوٹ گئی اور ہندو حکومت بنانے کا سہانہ خواب مٹی میں مل گیا۔اسطرح شاہ ولی اللہ کی عظیم جدو جہد کے نتیجے میں مرہٹوں کی طرف سے اُٹھنے والا خوفناک فتنہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دم تھوڑ گیا۔شاہ صاحب نے والئی افغانستان میں اسلامی حکومت بنانے کی دعوت دی تھی مگر وہ مرہٹوں کو شکست دے کر واپس چلا گیا۔اُس کا نامزد کردہ بادشاہ شاہ عالم ثانی ایک کمزور حکمران تھا اسلئے اسلامی حکومت کے قیام کی خواہش پوری نہ کر سکا۔اگر احمد شاہ ابدالی ہندوستان میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لاتا تو یقیناً آج ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت ہوتا۔شاہ صاحب نے زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو جگا کر اُسے اس کا فرض یاد کرایا۔آپ نے نہ صرف علمی و مذہبی معاملات میں بلکہ اجتماعی اور سیاسی معاملات میں بھی بے حد دلچسپی لی۔چاروں آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں مسلمانوں کے اندر اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا کی اور ان کو ہر روز کے مناظروں اور مذہبی جھگڑوں سے چھٹکارا دلایا۔تصوف کو سُنت کے قریب تر لانے کیلئے بھر پور سعی کی۔ اہل تشیع اور اہل سُنت والجماعت کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کر کے اُن کو اعتدال پر لانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ہر مسلک کے علمائے کرام کو ان کا فرض یاد کرایا۔سیاستدانوں سے اپیل کی کہ وہ قوم کو سیدھی راہ پر چلائیں اور مفاد پرستی چھوڑ دیں اور دولت مند مسلمانوں کو دین کی خدمت کیلئے خرچ کرنے کیلئے للکارا۔ہر ذی روح کی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 29محرم 75 1774-ء میں اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔فتاویٰ عالمگیری کے مصنفین میں آپ بھی شامل تھے لیکن بعد میں اپنے اُستاد ابو القاسم کے ارشاد کے مطابق اس کام سے الگ ہو گئے۔آپ نے 1737ء میں قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تاکہ پڑھنے والے اس کا مطلب اور مفہوم سمجھ کر عمل کر سکیں۔چونکہ اس زمانے میں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا گناہ سمجھا جاتا تھا اسلئے ترجمہ کرنے پر آپ کوتنبیہ کا نشانہ بنایا گیا۔آپ نے ا ن کی با لکل پرواہ نہ کی۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمان قرآن کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال کر بسر کر سکیں۔شاہ صاحب کی مشہور تصنیف حجتہ اللہ البالغہ ہے۔آپ کی خواہش تھی کہ مسلمان اعتدال کی حدود کے اندر رہ کر آپس کے تنازعات طے کریں ۔ہندوانہ رسم و رواج کو ترک کر کے خالص اسلامی رنگ اپنائیں۔انہوں نے توہمات پرستی اور معاشرے کی ان تمام بُری رسموں سے روکا جو ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔شادی بیاہ اور فوتیدگی کی رسموں میںبے جا اصراف کو روکا صرف عقیقہ کی رسم کو جائز قرار دیا۔ علمائ،مشائخ اور گوشہ نشین بزرگان دین کو اسلامی صالح معاشرے کی تعمیر کی طرف آنے کی دعوت دی اور ان کو اس راہ پر گامزن کیا۔انہوں نے حدیث کی قدیم کتاب موطا امام مالک کی شرح لکھ کر فارسی میں اس کا ترجمہ کیا۔آپ نے وسیع و عریض اپنی درس گاہ قائم کی۔آپ کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔دیو بند کے عظیم علماء او ر رہنماعلی گڑھ تحریک کے قائدین ندوة العلماء کے بانی اور تحریک مجاہدین کے علمبردار اسی دینی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔وہ ایسے معاشی نظام کے حق میں تھے جس میں دولت گردش کرتی رہے۔اُنہوں نے معاشی منصوبہ بندی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا تھا۔پاکیزہ معاشرے کے قیام کیلئے آپ ان عوامل کو ضروری سمجھتے تھے۔(1)۔معاشرہ اخلاقی قدروں سے شناسا ہو ۔(2)۔ہر شخص کی عزت نفس محفوظ ہو۔(3)۔کمزور کو طاقتور سے خطرہ لاحق نہ ہو۔(4)۔مالدار لوگوں سے غریبوں کو تحفظ حاصل ہو۔(5)۔حاکم کا رویہ محکوم کے ساتھ برادرانہ ہو۔(6)۔زندگی سادہ مگر پروقار ہو۔(7)۔فضول خرچی سے اجتناب کیا جائے
۔(8)۔شریعت اور حکم اللہ کی پاسداری ہو۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پوری زندگی اصلاحی اور علمی سرگرمیوں میں مدون کار رہے جن کے باعث وہ اپنے وقت کے امام تسلیم کئے جاتے ہیں۔
0 37 5 minutes read