الیکشن 2024ہوگئے ۔ 8فروری کو یہ الیکشن پر امن طریقے سے ہو گئے لیکن انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش اور نتائج میں تاخیر نے متعدد سوالیہ نشان چھوڑ دیئے۔ بہت سے راز فاش ہوگئے اور بہت سی سازشیں بے نقاب ہوگئیں ۔ نتائج کو نہ ماننے کی اس بار دھرنا سیاست جماعت اسلامی، پی ٹی آئی ، ٹی ایل پی ، جے یو آئی، شروع کر چکی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے بانی ، بانی ایم کیو ایم کی طرح سدھرنے کے موڈ میں نہیں ۔ انکو پہلے بھی غرور نے مارا اور اب آنے والا وقت ان کے لئے اس سے برا بھی ہوسکتا ہے۔ پی پی پی ، ن لیگ ، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں مل کر مخلوط حکومت بنائیں گی اسکے قوی امکانات ہیں۔ ایم کیو ایم کا revival ہوا ہے لیکن کیوں ہوا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق، سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جہانگیر ترین کی شکست الگ حیرت انگیز ہے تو پرویز خٹک اینڈ کمپنی کا وہائٹ واش بھی اہم ہے ، کے پی کے میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کا کلین سوئپ بھی ایک تاریخ ہے۔ ایم کیو ایم لندن کی تباہ کن شکست نے ہیلو کا خوف ختم کردیا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے لیکن انہوں نے پہلے ہی یہ کہ دیا تھا کہ مصطفی کمال جنکی ریڈ لائن ہے ۔آفاق احمد کی ریڈ لائن مہاجر پرچم ہے ۔ ڈاکٹر سلیم حیدر ، گرینڈ الائنس سب نشان عبرت بن گئے۔ جی ڈی اے کی مسلسل ناکامی نے اسے متنازعہ بنا دیا ہے۔ پی پی پی سندھ کی ہی نہیں کراچی میں بھی 7قومی اسمبلی اور 10سندھ اسمبلی کی نشستیں لے کر جیتی ہے لیکن ووٹرز اور ووٹ کے اعتبار سے وہ کراچی کے ان علاقوں سے بھی ووٹ لے کر ابھری ہے جو ایم کیو ایم کے مضبوط علاقے تھے۔ حیدر آباد میں بھی ایم کیو ایم کی ایک نشست کم ہوئی ہے۔ جبکہ میرپور خاص ، سکھر ، نواب شاہ ، اندرون سندھ سے ایم کیو ایم وہائٹ واش ہوگئی۔ پی پی پی نے تنہا 84نشستیں لیں جو 110تک پہنچ جائیں گی۔ دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔ پنجاب میں ن لیگ کے کچھ امیدوار واپس ن لیگ میں آگئے ہیں ۔ وہ سادہ اکثریت سے حکومت بنا لے گی۔ بلوچستان میں پی پی پی کی حکومت بننے کے امکانات ہیں ۔ کیونکہ مخلوط حکومت کی شرائط میں یہ ایجنڈا بھی شامل ہے۔ عمران خان کے آزاد امیدوار کس کروٹ جاتے ہیں اس میں بہت سارے سرپرائز سامنے آسکتے ہیں۔ مفاہمت کے بادشاہ اور میجک مین سیاست کے ان داتا آصف علی زرداری ترپ کا وہ پتہ ہیں جو حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ پی پی پی کو برا بھلا کہ کر سیاست کرنے والی ایم کیو ایم پی پی پی سے بات چیت کی بات کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو کی نواز شریف کے لئے چرب زبانی کا توڑ آصف علی زرداری کر چکے ہیں کہ یہ سیاست کا حصہ تھی ۔ ہم نے ان ہی کالموں میں لکھا تھا کہ آصف علی زرداری ن لیگ کے لئے محتاط رویہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اونٹ کب کس وقت کس کروٹ بیٹھے گا؟ انتخابی نتائج پر عمران خان اینڈ کمپنی نے عدالت عدالت کھیلو کا کھیل شروع کردیا ہے ۔ انکا کام ہی عدم استحکام اور ملک کو انتشار میں رکھنا ہے ۔ عام مبصرین کا کہنا ہے کہ جیل میں وی آئی پی سہولتیں سابق چیف جسٹس کے زریعے لینے کے بعد عمران خان قید تنہائی کی صعوبتوں سے تو گزر نہیں رہے جس سے آصف علی زرداری ، نواز شریف ، مریم نواز، فریال تالپور، ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت اور رہنما گزرے ہیں ۔ وہ اب بھی خود کو کنگ میکر اور 9مئی کے واقعات پر نہ شرمندہ نظر آتے ہیں نہ اپنے امیدواروں کے لئے رول ماڈل ہیں ۔ لطیف کھوسہ ، بیرسٹر گوہر اور اعتزاز احسن جیسے مشیر جو پی پی پی کو برباد کرکے گئے اب پی ٹی آئی کو غلط روش پر لے جا رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی اپنے روایتی کلچر دھرنا سیاست پر نبرد آزما ہے۔ ٹی ایل پی بھی یہی روش لے کر چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ایک پیج پر ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کو ایک نشست بھی قومی اسمبلی کی مل جاتی تو یہ اسے جوائن کرلیتے۔ جے یو آئی تو دو ہاتھ آگے شاہراہیں بند کر رہی ہے جبکہ حاصل حصول کچھ بھی نہیں ۔ عدالتوں میں جا کر پی ٹی آئی و دیگر حکومت سازی کے عمل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں ۔ نواز شریف ، مریم نواز و دیگر کے نتائج رکوانے کی کوشش اسی مہم کا حصہ ہے۔ پی پی پی کا مثبت کردار ہے جس نے شکست کے باوجود ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ سنجیدگی سے ملک میں مخلوط حکومت کے لئے سرگرداں ہیں ۔ کراچی اور حیدر آباد ایم کیو ایم کو واپس مل گئے ہیں ۔ لیکن بقول آفاق احمد مصطفی کمال ریڈ لائن ہیں ۔ انہی کی مرہون منت یہ معجزہ ہوا ہے۔ صرف یہ نہیں 2016سے2024تک بہادرآباد ایم کیو ایم نائن زیرو کے قریب نہیں پھٹک سکی ۔ اب جناح گرائونڈ عزیز آباد میں جشن فتح منایا جا رہا ہے۔ اگلے مرحلے میں مصطفی کمال خورشید بیگم ہال اور نائن زیرو کے علاوہ تمام دفاتر بھی واپس لے لیں گے۔ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ کامران ٹیسوری کی واپسی اور گورنر سندھ بننا اور پھر ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ایس پی کو ایم کیو ایم پاکستان میں مرج کرانا انکو لانے والوں کی فرمائش تھی ۔ جس میں آفاق احمد کی واپسی بھی شامل تھی لیکن آفاق احمد نے مہاجر سیاست سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔ جسکی وجہ سے وہ پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں۔ انہیں 1992سے مواقع ملتے رہے لیکن وہ ایک ایم این اے اور دو ایم پی اے سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ پرویز مشرف نے انہیں موقع دیا لیکن وہ اٹکے رہے جسکی وجہ سے انکا مرکز مسمار ہوگیا۔ موجودہ حالات میں یہ بہتر فیصلہ ہوتا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بناتے تو انہیں لانڈھی کی نشست مل جاتی لیکن انہوں نے لندن جہاں سے انہیں مسلسل گالیاں دی جا رہی تھیں یہ سوچ کر کہ وہ اس خلاء کو پورا کرسکتے ہیں غلط پتے کھیلے اور مقتدر حلقوں کی نظر میں انکی حیثیت مشکوک ہوگئی۔ اس طرح وہ پارلیمانی سیاست سے دور ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی فین فالوونگ بڑھی ہے لیکن اگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو پھر سیاست بے معنی۔ مصطفی کمال کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پی ایس پی کے پلیٹ فارم سے کراچی کے حقوق کے لئے ایم کیو ایم سے زیادہ آواز اٹھاتے رہے۔ جماعت اسلامی اور پی ایس پی دونوں کراچی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر آواز اٹھاتی رہیں۔ لیکن مہاجر قومی موومنٹ میڈیا اور جدوجہد میں کہیں نمایاں نظر نہیں آئی جسکا نتیجہ یہ ہے کہ کسی چینل نے مبصر نے انہیں سیاسی جماعت کی حیثیت سے بھی نہیں گنا۔ 6فروی کو شاندار ریلی کی کوریج بھی نہ کراسکے ۔ میڈیا انکے اعلان کا منتظر رہا لیکن انہیں شدید دبائو میں دیکھ کر انکی ناکام سیاست کا انہیں ادراک ہوگیا۔ وہ اب احتجاج اور ریلی کی بات کر رہے ہیں لیکن وقت گزر گیا۔ عامر خان اور وسیم اختر کی طرح انکا بھی کردار واجبی ہو کر رہ گیا ہے۔ کراچی کی سیاست میں دو ہی جماعتیں ہیں جنکی قیادت Collapse ہو گئی جس میں آفاق احمد جیل میں ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔ دوسری سنی تحریک ہے جسکی قیادت نشتر پارک دھماکے میں ختم ہوگئی تھی۔ لیکن آفاق احمد اب تک انا کے خول میں قید ہیں ۔ انہیں مصطفی کمال کی طرح حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ نعیم حشمت ، آصف حفیظ ، وسیم احمد ، یامین ، موسی خان ، بہت سے مرکزی لیڈر پاکستان سے باہر ہیں ۔ شمعون ابرار ، ڈاکٹر سلیم حیدر، اسلم خان ، یہ سب مل کر ایک بڑی قوت بن سکتے ہیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سب انا کے خول میں قید ہیں۔ مصطفی کمال نے جس طرح بھی پاور واپس لی وہ خوش آئند ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول ، عامر خان ، وسیم اختر نے ایم کیو ایم کو زیرو کیا۔ لیکن مصطفی کمال پر کوئی کتنی ہی تنقید کرے وہ بہترین کھیل کر ایم کیو ایم کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کا کچھ ہوجائے گا۔ پی پی پی کا میئر بہترین میئر ہیں ان پر ایم کیو ایم کو ورکنگ ریلیشن شپ بنا کر کراچی کو ترقی کی طرف لیجانا چاہئے۔ دوسری جانب حافظ نعیم الرحمان کی جیت سے اب وہ سندھ اسمبلی چلے جائیں گے وہ بھی کراچی حقوق کی بہترین آواز ہیں ۔ میئر کراچی کے لئے یہ خوش آئند خبر ہے کیونکہ اب کے ایم سی کا ہائوس چلنے لگے گا ۔ ساری قوم کی نظریں وفاق کی طرف ہیں ۔ لگتا ایسا ہے کہ اگر ن لیگ کا وزیر اعظم بنا تو صدر پی پی پی کا ہوگا۔ پی پی پی کا وزیر اعظم بنا تو صدر ن لیگ کا ہوگا۔ ایم کیو ایم ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ مانگ سکتی ہے۔ آئندہ چند دن فیصلہ کن ہوں گے جس میں صدر آصف زرداری کا کردار اہم ہوگا۔
0 44 6 minutes read