کالم

آخرکاردونوں پھنس گئے

سلطان وہی ہوتا ہے جسے عوام بنائے تخت پرزبردستی تو یزید بھی بیٹھا تھا،عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کے طاقتورحلقوں یعنی فیصلہ سازوں کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے اب اس بات کافیصلہ عوام کرے گی کہ عمران خان کی یہ سوچ کس حد تک درست رہی ہے،ایوب خان نے اپنے شخصی اقتدار کی خاطر مشرقی پاکستان میں جو احساس محرومی کے بیج بوئے تھے اسکی فصل یحییٰ خان کے نا اہل دور اقتدار میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی، یحییٰ خان نے عوامی لیگ کی 162 نشستیں ہونے کے باوجود اسے اقتدار سے محروم رکھا جس کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا مگر ہمارے فیصلہ سازوں نے المیہ مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا اورابھی تک وہ ہی کھیل جاری ہے ، ایک بڑے عوامی سوموٹوکے باجود کچھ حال پاکستان کی موجودہ سیاست اور الیکشن 2024کا بھی سنیے کہ جس میں ہونے والی دھاندلی کی گونج صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں سنائی دے رہی ہے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کے بیشتر حمایت یافتہ امیدواروں کو انتخابی مہم نہ چلانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں بعض آزاد امیدوار اپنے پولنگ ایجنٹوں کا انتظام نہ کر سکے لیکن ان کے بیلٹ بکس بھرے نکلے۔الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان تحریک ِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اب تک قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 74 نشستوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک بھر میں اب تک 54 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17 نشستیں جیت چکی ہے لیکن یہ طے ہے کہ ملک میں نئی پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد بھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا یعنی پی ڈی ایم پارٹ ٹو ملکی استحکام کے لیے مزید مصیبتیں لانے کے مترادف ہوگی ،8فروری 2024کو پی ٹی آئی کا ووٹر نکلا اور اس نے بڑے بڑے برج الٹ دئیے،امریکی نشریاتی ادارے ‘سی این این’ نے ایک رپورٹ میں تبصرہ کیا کہ عمران خان کی الیکشن سے باہر ہونے کے بعد اب مقابلہ پاکستان کے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان نظر آتا ہے جن میں تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف اور سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری امیدوار ہیں،بھارتی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ نے بھارت کے پاکستان میں سابقہ ہائی کمشنر اجے بساریہ کا انتخابات کے حوالے سے انٹرویو کیا،سابق سفیر نے تبصرہ کیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی عیاں ہے۔ یہ الیکشن کے بجائے سلیکشن نظر آتے ہیں کیونکہ ایک من پسند حکومت کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات سے پہلے ہی مبینہ طور پر دھاندلی کی گئی ہے۔ ایک بلے کے نشان پرکیا کیا نہ ڈرامے دیکھنے کو ملے مگر ہم تواب یہ کہتے ہیں کہ بلے سے ہارتے تو عزت رہ جاتی،بینگن، گاجر، مولی اور کھیرے،چمٹے جوتوں سے ہارگئے یہ ہی وجہ ہے کہ سننے میں آرھاہے کہ قیدی سے بیک ڈورمذاکرات ہورہے ہیں یقینی طور پر یہ عمل ایک تاریخی عوامی مینڈیٹ تسلیم کرنے کی شروعات ہوسکتی ہے ایک دباو بھی ہے کیونکہ عالمی برادری اور عالمی میڈیا نے دھاندلی زدہ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس پرتحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتاجارھاہے یعنی جو آزاد امیدوار رات تک لاکھوں ووٹوں سے جیت رہاتھا وہ انتخابی نتائج کئی گھنٹے رکنے کے بعد لاکھوں ووٹوں سے ہار کیسے جاتاہے،پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے این اے 238 کے نتائج کو چیلنج کردیاہے حلیم عادل شیخ نے اٹارنی کے ذریعے بیرسٹر علی طاہر کے توسط سے درخواست دائر کی فارم 45 کے مطابق حلیم عادل شیخ نے حلقے میں 71 ہزار سے زائد ووٹ لیے، بیرسٹر علی طاہر فارم 47 میں نتائج کو تبدیل کرکے ایم کیوایم امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا گیا، امیدوار صادق افتخار کو 54 ہزار ووٹوں سے کامیاب قرار دے دیا گیا، اور استدعا کی گئی ہے کہ ایم کیوایم امیدوار صارق افتخار کو کامیاب قرار دیے جانے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے، اسی طرح مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی اور بیٹے سمیت ملک بھر میں یہ ہی صورتحال رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کاحلقہ این اے 130جو انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے نواز شریف ایک خاتون قیدی کے مقابلے میں بمشکل کامیاب ہوئے۔خواجہ آصف نے بھی اپنی بدترین شکست کو جیت میں بدلنے کی ناکام کوشش کی،پشاور میں انتخابی میدان آزاد اور عمران خان کے حمایت یافتہ لوگوں کے حق میں رہا پنجاب بھی ن لیگ کے لیے مشکوک ہوچکاہے ایک زبردست عوامی ریفرنڈم تاریخ رقم کرچکاہے اور آہستہ آہستہ 75 سالہ یہ غلط فہمی بھی ختم ہوئی کہ عوام ہی چوروں کو منتخب کر کے اسمبلیوں تک پہنچاتی ہے عوام نے اپنا بھرپور فیصلہ دیا میاں نواز شریف انتخابی نتائج آنے سے پہلے اُونچی ہوائوں میں تھے۔ انہوں نے اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ مخلوط حکومت کی تو بات ہی نہ کریں، مسلم لیگ (ن) تنہا حکومت بنائے گی، اب نتائج آنے کے بعد وہ مخلوط حکومت کے لیے پیپلز پارٹی سے مذاکرات کررہے ہیں گلے شکوے ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہوچکاہے وہ سب اب گلی محلوں میں زیربحث ہے کراچی جو ملک کی معاشی شہہ رگ ہے، اس شہر کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ ملک کی کل جی ڈی پی میں بڑا حصہ ڈالتا ہے اسے اس کی حقیقی قیادت سے محروم کرکے عوام کی مستردشدہ ایک جماعت کو مسلط کردیا گیا ہے جس کافیصلہ بھی عوام جلد کردے گی،کیونکہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج ظاہر کر رہے ہیں کہ 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی ملک میں مضبوط و مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو سکے گی نہ جمہوری اداروں کو استحکام حاصل ہو سکے گا اس کے برعکس حالیہ انتخابات کے بعد بھی اشرافیہ کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا پرانا کھیل جاری رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔بھیڑوں کوتمام عمر بھیڑیے کاڈر ہوتاہے لیکن آخرکاران کوکھاتاانکا محافظ ہے
۔ لیکن اس بار شاید اب عوام کچھ اور ہی فیصلہ کرچکی ہے اور پھر بھیڑیااور محافظ دونوں ہی پھنس بھی توچکے ہیں.۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button